Archive for the ‘Uncategorized’ Category

آمد و رفت

Sunday, July 21st, 2013

آمد و رفت
( نصر ملک ۔ ڈنمارک ) ۔
کوئٹہ سے حسن کی تبدیلی جب کراچی میں ہوئی تو اُن دونوں میاں بیوی کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا۔
’’ چلو یہاں کی قتل و غارت گری سے تو بچ جائیں گے۔‘‘ حسن کو ہر روز کے بم دھماکوں، لوگوں کے قتل ہونے اور بوریوں میں بند لاشوں کے برآمد ہونے پر ہر وقت تشویش رہتی تھی ۔اور اُن کے گھروالوں کو تو ایک دو بار دھمکیاں بھی مل چکی تھیں کہ وہ اپنے گھر پر لگے ہوئے ’’ علم ِ عباس ‘‘ کو اتار دیں ورنہ جو کچھ بھی ہوگا اس کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے ۔ اور فاطمہ بھی یہی سوچتی رہتی تھی کہ ہونا ہو ایک دن وہ بھی اس غارت گری کا نشانہ نہ بن جائیں ۔
حسن کو کراچی میں ایک بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی اور اب وہ اپنی بیوی اور ایک سال کی بچی کے ساتھ کراچی روانہ ہو رہے تھے ۔ امامیہ کالونی کے کئی لوگ انہیں خدا حافظ کہنے انہیں گھر پر آئے تھے اور حسن کے والدین نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اور دعاؤں سے رخصت کیا ۔
کراچی آنے سے پہلے ہی حسن نے اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے جعفریہ کالونی میں اپنے لیے ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا ۔ اس لیے انہیں یہاں آکر مکان وغیرہ کے لیے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔
حسن کا یہ معمول تھا کہ صبح کام پر چلا جاتا اور دفتر سے چھٹی ہوتے ہی رستے میں گھر کے لیے سامان خریدتا اور پھر سیدھا گھر پہنچ کر بیوی اور بچی کے ساتھ ہنسی خوشی میں شامل ہو جاتا ۔ دن گزرتے جا رہے تھے اور فاطمہ بھی محلے میں خواتین کی ایک رفاعی انجمن میں شامل ہو کر نادار بچیوں اور بیوہ عورتوں کی مدد کے لیے کام کرنے لگی تھی ۔ وہ ننھی زینب کو ساتھ لے جاتی اور اس طرح اس کی کئی سہیلیاں بھی بن گئیں تھیں ۔
انہیں کراچی آئے تین ماہ ہو چکے تھے ۔ اور حسن ہر دوسرے تیسرے روز کوئٹہ میں والدین کو فون کرکے انہیں اپنے حالات سے آگاہ کردیتا تھا اور وہاں گھر والوں کی خیر خیریت پوچھ لیتا تھا ۔ وہاں ابھی تک تو سب خیریت سے تھے اور یہاں کراچی میں وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ بہت خوش تھا ۔ لیکن اچانک ایک دن ایسا ہوا جو انہیں خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
آج اپنے کام کے بعد حسن جب گھر پہنچا تو وہ بیحد نڈھال دکھائی دے رہا تھا ۔ اور وہ بازار سے وہ سودا بھی نہیں لایا تھا جس کے لیے فاطمہ نے اُسے دفتر جاتے ہوئے کہاتھا ۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو بھی پیار نہیں کیا تھا وہ اُس کی ٹانگوں سے لپٹی ’’ بابا، بابا ‘‘ کی رٹ لگا رہی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ؟ آپ چپ سے کیوں ہیں ؟‘‘ فاطمہ نے پوچھا۔
حسن جواب دینے کی بجائے فاظمہ کے چہرے پر نظریں جمائے چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس کے اندر ایک ایسا تلاطم تھا کہ جس کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ ہی نہیں تھا۔
’’آپ نے جواب نہیں دیا ‘‘۔ فاطمہ نے پھر اسے متوجہ کیا۔ ’’ کیا دفتر میں کچھ ہوا ہے؟‘‘
’’نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں، دفتر والے تو میرا گریڈ بڑھا دینے کی بات کر رہے تھے ۔‘‘ حسن بولا ۔ اس کی آواز یوں سنائی دے رہی تھی جیسے وہ کسی گہرے کنویں سے بول رہا ہو ۔
’’یہ تو خوشی کی بات ہے ۔ مولا کا کرم ہمارے شامل ہے، آپ کیوں اداس اداس سے لگتے ہیں؟‘‘
’’ میں ، میں اداس تو نہیں ہوں ۔۔۔۔ بس میں ۔۔۔۔ ‘‘ حسن اس سے آگے کچھ بھی نہ بول سکا اور اس کے ہونٹ کانپنے لگے اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ اُس نے اپنے کوٹ کی جیب سے کاغذ کا پرزہ نکال کر فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔ ’’ پچھلے تین دنوں سے کوئی میری میز پر اسی طرح کا رقعہ رکھ جاتا ہے ۔‘‘
فاطمہ نے وہ رقعہ پڑھنا شروع کیا، اس کے ہاتھ لرز رہے تھے ۔
’’ حرامی کافر، تم کوئٹہ سے فرار ہوکر ادھر آگیا تو کیا سمجھتا ہے تو بچ جائے گا ۔ ہم جانتے ہیں تو کہاں رہتا ہے اور تمھاری بیوی کن عورتوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔ تین دن کے اندر اندر نوکری چھوڑ کر وہیں چلا جا جدھر سے آیا ہے ورنہ تیری اور تیری بیوی اور بچی کی لاشیں ہی ادھر جائیں گی۔ وہ بھی اگر شناخت کے قابل رہیں تو ۔ تیرے پاس بس اب تین دن باقی ہیں ۔ یہ آخری وارننگ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
فاطمہ اس سے آگے کچھ نہیں پڑھ سکی تھی ۔ رقعہ اس کے ہاتھ سے نیچے گر پڑا تھا اور وہ حسن سے چمٹ کر رو رہی تھی ۔ ننھی زینب کی سمجھ میں کچھ بھی تو نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ وہ ان کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھی ۔
’’ تو آپ کیا کرنے والے ہیں؟‘‘ فاطمہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے حسن سے پوچھا ۔
’’ میں استعفیٰ دے آیا ہوں ۔ مولا مسب الاسباب ہے۔ ہم کل شام کی گاڑی سے واپس جا رہے ہیں‘‘۔ حسن کے لہجے میں اعتماد تھا اور وہ سنبھل چکا تھا ۔ اس نے ننھی زینب کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا تھا، ’’ میری بیٹی کل دادا دادی کے پاس جائے گی ‘‘ وہ اسے بار بار چومتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ کل شام ہم دادا دادی کے پاس جائیں گے ۔‘‘
آج شام ان کے گھر میں چولھا جلا اور نہ کھانا پکا ۔
فاطمہ اور حسن رات بھر سامان باندھنے میں لگے رہے ۔
اگلے دن وہ ایک ٹیکسی میں سوار ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے ۔
( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک ) ۔

تغیّر

Friday, November 11th, 2011

ایک اور ظالم ماہ ختم ہوا، لیکن
ہمارے لیے چھوڑ گیا ہے بے کفن لاشوں کے انبار
حتیٰ کہ سانس لینا بھی موت ہے
اورپانی پینا بھی مرگ حیات ہے ۔
میں اتنی اموات سے دُ کھی نہیں ہوں، لیکن
میرا وطن اتنے قبرستانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا
ہمیں اب وسیع اجتماعی قبریں کھودنا چاہیئے
جہاں ہم اپنے امن کے خوابوں اور امیدوں کو دفن کر سکیں۔
ہمارا مستقبل تو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے
خون کی اُن ندیوں میں جو آئے دن پہاڑوں سے،
میدانوں کی جانب بہتی آتی ہیں، اور
سب کچھ ساتھ بہا لے جاتی ہیں ۔
نصر ملک ۔ کوپن ہیگن
یکم اکتوبر ٢٠١١ ء

اپنے ہی گھر کی تعمیر

Tuesday, June 7th, 2011

اپنے ہی گھر کی تعمیر

ایک بڑھئی جسے ایک ٹھیکدار کے ہاں کام کرتے اور لوگوں کے لیے گھر تعمیر کرتے ہوئے عرصہ گزر چکا تھا، اس نے اب کام چھوڑ دینے اور اپنی باقی زندگی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  اُس نے اپنے اس فیصلے سے جب ٹھیکدار کو مطلع کیا تو ٹھیکدار نے اُسے بہت سمجھایا اور کام جاری رکھنے کو کہا لیکن جب بڑھئی نہ مانا تو ٹھیکدار نے اسے اپنی اک یادگار چھوڑجانے کے لیے صرف ایک آخری مکان تعمیر کرنے کی درخواست کی ۔  ’’یہ مکان تمھاری نشانی ہو گا اور مجھے اور اس  مکان میں رہنے والوں کو تمھارے بے مثال ہنر کی یاد دلاتا رہے گا ‘‘۔  ٹھیکدار نے اُس سے کہا ۔
بڑھئی نے ٹھیکدار کے کہنے پر مکاں کی تعمیر تو شروع کردی لیکن چند ایک دن میں اُس کا دل کام کرنے بھر سےگیا اور جس قسم کا بھی سمینٹ، اینٹیں، لکڑیاں اور دوسرا سامان ِتعمیر اسے ملا اُس نے کوئی چھان بین کیے بغیر اسے مکان کی تعمیر میں لگا دیا۔ وہ جلد سے جلد اس کام سے فارغ ہو جانا چاہتا تھا ۔ زندگی بھر دوسروں کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ مکانات تعمیر کرنے والے ایک نامی گرامی بڑھئی کے لیے اس طرح جلد بازی اور بے دلی سے مکان تعمیر کرنا ایک بدقسمتی تھی ۔
جب مکان تعمیر ہو گیا تو ٹھیکیدار اُس کے معائینے کے لیے آیا اور اُسے اندر و باہر سے دیکھ کر مکان کے بڑے دروازے پر آن کھڑا ہوا ۔ بڑھئی ابھی اُس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ اسے مکان کیسا لگا کہ ٹھیکیدار نے مکان کے بڑے دروازے کی کنجی اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’  یہ مکان دراصل میرے لیے تمھاری خدمات کے عوض ایک تحفہ ہے، جاؤ اپنے بال بچوں کو لے آؤ اور یہاں رہو۔‘‘
بڑھئی وہاں بے حس و حرکت ایک بت بنا کھڑا تھا۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کیوں؟


محبت اور وقت

Monday, May 23rd, 2011

محبت اور وقت
از :  نصر ملک

قدیم زمانے کی بات ہے، ایک بہت ہی خوبصورت چھوٹے سے جزیرے پر سبھی  ’’  احساسات و جذبات ‘‘ ،  خوشی ، غمی، دانش  اور بہت سے دوسرے جن میں محبت بھی شامل تھی ، ایک ساتھ اکٹھے رہتے تھے ۔ ایک دن ان سب کو بتایا گیا کہ جزیرہ ڈوبنے والا ہے لہٰذا وہ اپنے  بچاؤ کے لیے کشتیاں تیار کر لیں ۔ اُن سب نے ایسا ہی کیا اور پھر اپنی اپنی کشتی پر سوار ہو کر جزیرہ چھوڑگئے، لیکن محبت نے نہ کشتی بنائی اور نہ ہی جزیرے کو چھوڑا ۔
اب جزیرے پر صرف محبت ہی تھی جو رہ گئی تھی اور وہ جہاں تک ممکن تھا، آخری لمحے تک وہیں رہنا چاہتی تھی ۔
جب جزیرہ کم و بیش ڈوب گیا تو محبت نے مدد کے لیے پکارا ۔
عین اُسی لمحے ’’ امارت ‘‘ قریب ہی سے اپنی بڑی کشتی میں سوار گزر رہی تھی ۔
محبت نے اُسے دیکھا تو زور سے آواز دی، ’’ امارت بہن کیا تم مجھے اپنے ساتھ لے چلو گی؟ ‘‘۔
’’ نہیں، میں تمھیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی ۔ میری کشتی میں بیشمار سونا ، چاندی  اور جواہرات لدے ہوئے ہیں ۔ یہاں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں‘‘۔  امارت نے کہا ۔
محبت نے ’’ تکبر ‘‘ سے پوچھا،  ’’ تکبر بھائی میری مدد کرو، مجھے اپنے ساتھ لے چلو‘‘۔
’’ نہیں میں تمھاری مدد نہیں کرسکتا‘‘۔ تکبر اپنی خوبصورت کشتی کو آگے بڑھاتا ہوا بولا ۔  ’’ تم پوری طرح بھیگی ہوئی ہو اور میری کشتی کو نقصان پہنچا سکتی ہو‘‘۔
اپنی کشتی میں سوار ’’ خوشی ‘‘ جونہی محبت کے قریب سے گزری اُس نے اُس سے بھی وہی سوال کیا لیکن،  خوشی اپنے آپ میں یوں خوش تھی کہ اُس نے محبت کی آواز ہی نہ سنی ۔
محبت نے  قریب سے کشتی میں گزرتی ہوئی ’’ اُداسی ‘‘  سے کہا کہ وہ  اُسے اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کرلے ۔
’’اوہ، پیاری محبت! میں ایسا نہیں کر سکتی، میں خود اتنی اداس ہوں کہ میں اپنے آ پ ہی میں رہنا چاہتی ہوں‘‘۔
پھر اچانک وہاں ایک آواز آئی ، ’’ محبت آؤ ! ادھر آؤ ، میں تمھیں اپنے ساتھ  لے چلتی ہوں ‘‘۔  یہ ایک بوڑھی آواز تھی ۔ محبت کی جان میں جان آئی اور وہ خوشی میں یہ جاننا بھی بھول گئی کہ وہ کس کی آواز تھی اور وہ اُسے کہاں لے جا رہی تھی ۔ جب وہ  خشک زمین پر پہنچیں تو  بوڑھی نے اپنی راہ لی اور اچانک غائب ہو گئی ۔ محبت سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ بوڑھی کا شکریہ کیسے ادا کرے ۔
محبت نے ایک اور بوڑھی  ’’ دانش ‘‘  سے پوچھا کہ اگر وہ جانتی ہو کہ کہ اُس کی مدد کس نے کی تھی؟
’’ یہ ’’ وقت ‘‘ تھا ‘‘ ، دانش نے جواب دیا ۔
’’ وقت؟‘‘ ، محبت نےحیرانی سے پوچھا ۔ ’’ لیکن وقت نے میری مدد کیوں کی ؟ ‘‘۔
دانش نے مسکراتے ہوئے ایک گہری حکیمانہ سانس لی اور بولی، ’’ کیونکہ یہ صرف وقت ہی ہے جو سمجھ سکتا ہے کہ ’’ محبت ‘‘  کتنی قیمتی ہے‘‘ ۔

قارئین کرام! کہا آپ بھی ’’وقت ‘‘  سے متفق ہیں کہ ’’محبت ‘‘ سے بڑھ کر کوئی اور قیمتی شے ہو ہی نہیں سکتی؟

 

 

 

طوفان میں گھرا عقاب

Sunday, May 22nd, 2011

طوفان میں گھرا عقاب
از نصر ملک

کیا آپ جانتے ہیں کہ  عقاب کسی طوفان کی آمد سے بہت پہلے ہی آگاہ ہوجاتا ہے؟
طوفان کی آمد سے پہلے ہی عقاب بلندی پر پرواز کر تے ہوئے، طوفانی ہوا کے آنے کا انتظار کرتا ہے اور جب طوفان اُمڈ آتا ہے تو عقاب اپنے پنکھ کچھ یوں پھیلا دیتا ہے کہ ہوائیں اُسے نیچے سے اُوپر اٹھا کر ، طوفان سے بہت اوپر لے جاتی ہیں تب طوفان اُس کے نیچے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور عقاب اُس کے اوپر  بلند پرواز کرتے ہوئے ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ چکا ہوتا ہے ۔
عقاب طوفان کی آمد کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی اِس سے بچ سکتا ہے لیکن وہ طوفان کو یوں استعمال کرتا ہے کہ وہ اُسے ’’اوج‘‘ پر پہنچا دیتا ہے  اور وہ اُن ہواؤں کے اُوپر محو پرواز رہتا ہے جو طوفان لاتی ہیں ۔
زندگی کا طوفان جب ہمیں آن گھیرتا ہے تو ہم عقاب کے اس اصول کو آزما اور اپنا سکتے ہیں ۔ ہم  اپنے اعتقاد و یقین  اور ذہن کو مضبوط و پختہ بنا کر ان طوفانی ہواؤں اور طوفان پر حاوی ہو سکتے ہیں اور اِن سے اوپر ، پرواز سکتے ہیں ۔ خود کو طوفانی جھکڑوں سے نکال کر ’’ عروج‘‘ پر جانے  کے لیے، ہم قدرتی قوتوں کو ، جو خود ہمارے ہی اندر ہوتی ہیں،  بروئے کار لا سکتے ہیں ۔
ہم اپنی قوت ایمانی سے،  طوفانوں کی اُن بلاؤں پر قابو پا سکتے ہیں جو ہماری زندگیوں میں بیماریاں، سانحے، ناکامیاں اور مایوسیاں لاتی ہیں۔ ہم طوفانوں سے بالا،  ’’ اوج ‘‘ پر پہنچ سکتے ہیں ۔
یہ زندگی کا بوجھ نہیں ہوتا جو ہمیں نیچے دبا دیتا ہے  بلکہ یہ تو وہ طریقہ ہوتا ہے جو ہم اس بوجھ کو اتارنے کے لیے اپناتے ہیں ۔

 تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

 

صدائے باز گشت

Sunday, May 22nd, 2011

صدائے باز گشت

از : نصر ملک

ایک درویش اور اُس کا چیلا، پہاڑوں میں کہیں سفر کر رہے تھے ۔
اچانک چیلے کا پاؤں پھسلا اور وہ گر گیا ۔ اس طرح اُسے ایک سخت چوٹ لگی اور درد سے اُس کی چیخ نکل گئی ۔
وہ اپنی درد کی شدت تو بھول گیا لیکن حیران تھا کہ اُسے اُسی طرح کی چیخ دوسری جانب سے، کہاں سے سنائی دی ۔
اب وہ شوق میں چلایا،  ’’ تم کون ہو؟‘‘
جواب میں اُسے بھی یہی سنائی دیا،  ’’ تم کون ہو؟‘ُ
وہ پھر پہاڑ کی طرف منہ کرکے چلایا،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
دوسری طرف سے بھی ہو بہو وہی صدا سنائی دی،  ’’ میں تمھاری تعریف کرتا ہوں!‘‘
اس جواب پر وہ سخت غصے میں چلایا،  ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب دوسری جانب سے بھی یہی آواز سنائی دی، ’’ ڈرپوک سامنے تو آ! ‘‘
اب چیلے کے صبر کا پیمانہ بھر چکا تھا، اُس نے اپنے گرو درویش کی جانب دیکھا اور پوچھا ، ’’ گرو یہ سب کچھ کیا ہے؟‘‘
درویش مسکرایا اور بولا،  ’’ میرے بیٹے، میرے چیلے، دھیان دو ‘‘۔
اب چیلے نے ایک زوردار آواز لگائی ،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو!‘‘۔
دوسری جانب سے بھی یہی جواب ملا،  ’’ تم اعلیٰ ترین ہو! ‘‘۔
اب چیلے کی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی اور اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ جو کچھ وہ خود کہتا ہے دوسری جانب سے اُسے وہی بات جواب میں ، ہو بہو دہرا دی جاتی ہے ۔ چیلا اس معاملے کو سلجھا نہ سکنے پر بہت پریشان اور رنجیدہ تھا ۔
درویش نے چیلے کی یہ حالت دیکھی تو بولا،  ’’ یہ صدائے بازگشت ہے،  لوگ اِسے گونج بھی کہتے ہیں، یہ تمھیں ہر وہ شے ہو بہو واپس لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو۔ ہماری زندگی ہمارے اعمال کا  ’’ پر تُو ‘‘ ہے ۔ اگر تم دنیا میں زیادہ محبت چاہتے ہو تو  اپنے دل میں زیادہ محبت پیدا کرو۔  اگر تم اپنے سنگھیوں کی ٹولی میں زیادہ صلاحیت پیدا کرنا چاہتے ہو تو اپنی استبداد کو بہت بناؤ اور اُسے بڑھاؤ۔ یہ تعلق ، زندگی کے تمام پہلوؤں میں ، ہر شے پر لاگو ہوتا ہے ۔ زندگی تمھیں ہر وہ شے واپس لوٹائے گی جو تم اُسے دو گے ۔تمھاری زندگی محض  ’’ اتفاق ‘‘ نہیں ۔ یہ تمھارا ہی ’’ پَرتُو ہے !‘‘
جی تو قارئین، آپ کی کیا رائے ہے، اس باے میں؟

دو مینڈک

Saturday, May 21st, 2011

       مینڈکوں کی ایک ٹولی اپنی ہی دھن میں، جنگل میں کہیں جا رہی تھی کہ اچانک اُن میں سے دو مینڈک ایک گڑھے میں جا گرے ۔ دوسرے مینڈکوں نے جب جھانک کرگڑھے میں دیکھا کہ وہ کتنا گہرا ہے تو وہ ان دونوں مینڈکوں کو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اُن کے لیے ’’ زندہ و مردہ ‘‘ دونوں صورتیں اب ایک برابر ہیں ۔
اُن دونوں مینڈکوں نے اپنے ساتھیوں کے  اس تبصرے کو نظر انداز کر دیا اور گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے  اپنی پوری قوت کے ساتھ اوپر اچھلنا شروع کردیا تاکہ کود کر گڑھے سے باہر نکل سکیں۔ دوسرے مینڈکوں نے انہیں ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا کیونکہ اُن کے خیال میں وہ دونوں  مینڈک مردہ یا زندہ ایک برابر ہی تھے ۔ بلآخر اُن دونوں میں سے ایک مینڈک نے دوسرے مینڈکوں کی بات مان لی اور گڑھے سے باہر نکلنے کی اپنی کوشش روک دی ۔ اور وہ گر کر مر گیا ۔
 دوسرے مینڈک نے گڑھے سے باہر نکلنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھی اور بڑی شدت سے اچھلتا کودتا رہا ۔ دوسرے مینڈک  شور مچاتے ہوئے اسے بھی اپنے ساتھی مردہ مینڈک کی طرح اپنی کوشش ترک کرکے مر جانے کے نعرے لگا رہے تھے ۔ لیکن اُس نے اپنی کوشش اور بھی تیز کردی اور بلآخر یہ مینڈک  گڑھے سے باہر کود جانے میں کامیاب ہو گیا۔  جب وہ گڑھے سے باہر نکل آیا تو  دوسرے مینڈکوں نے اُس سے پوچھا ’’  کیا تم نے ہماری آوازیں نہیں سنی تھیں؟ ‘‘  مینڈک نے جواب دیا،  ’’  میں تو بہرہ ہوں، میں یہی سمجھتا رہا کہ تم میری ہمت بڑھا رہے ہو‘‘۔
آپ کیا سمجھے؟
نتیجہ خود اخذ کیجیئے ۔

ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

Wednesday, March 30th, 2011

نصر ملک، کوپن ہیگن

ایک بدعت گذار ستمکار کی موت

ایک نوجوان مبلغ یہ کہہ کر اپنی بستی کے لوگوں سے دور چلا گیا کہ اگر خداوند نے مجھے زندہ رکھا تو میں پچاس سال  بعد اپنی بستی میں آؤں گا ۔ اُس  نےبوقت رخصت اپنے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ وہ اس کے لیے دعا کریں کہ وہ خداوند کے ابدی پیغام کو پھیلا سکے اور تبلیغ کے جس مشن پر وہ روانہ ہو رہا ہے ، خود خدا اُس کی نگہبانی کرے اور اسے کامیابی سے نوازے۔

پچاس سال بعد، کڑاکے کی سردی میں، ایک رات ،ایک بہت ہی ضعیف و لاغر باریش فرد، پرانا جبہ  پہنے، اپنے گدھے کو ساتھ لیے، اسی بستی میں داخل ہوا اور اپنے گدھے کو بستی کے معبد کے باہر باندھ  کر خود سیدھا معبد میں داخل ہو گیا ۔ وہاں پر ہرشے ویسی ہی تھی جیسی پچاس سال پہلے تھی ۔ اُس نے  معبد کے مینار پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا ، “ میں آ گیا ہوں!، میں آ گیا ہوں!!‘‘جن لوگوں  نے اُس کی پکار سنی وہ معبد کی طرف بھاگے ۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا ، “ یہ کون ہے؟ ‘‘۔
اور جب وہ سب معبد میں اکٹھے ہوگئے تو اجنبی مینار سے نیچے اتر کر اُن کے درمیان آن کھڑا ہوا،  “ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘  اُس
نے اُن سے پوچھا ۔ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی اپنی کہانی سنا دی کہ کس طرح وہ پچاس سال پہلے اس بستی کو چھوڑ گیا تھا تاکہ خدا کے ابدی پیغام کو لوگوں تک پہنچا سکے۔
بھیڑ میں موجود بڑے بزرگوں اور اُس کے ہمعمر لوگوں نے اسے پہچان لیا تھا اور اُس کی آمد کو اپنے لیے نیگ شگون قرار دے رہے تھے ۔  “ ہمیں اپنے سفر کے بارے میں بتاؤ‘‘،  اُن میں ایک جو ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے میں مقدس کتاب تھامے ہوئے تھا بولا ۔ اپنے حلیے سے وہ بھی کوئی امام و مبلغ ہی دکھائی دے رہا تھا ۔
 “ ہاں، ہاں! میں سب کچھ بتاتا ہوں‘‘ وہ مبلغ جو اب اسی پچاسی سال کا بوڑھا و ناتواں معمر دکھائی دیتا تھا بولا ۔
 پھر وہ سب معبد کے اندر ایک دائرے میں بیٹھ گئے اور اُس معمر و ناتواں مبلغ نے بولنا شروع کیا ؛
 “پچاس سال پہلے اپنی اس بستی کو چھوڑ کر میں کہاں کہاں گیا؟،  یہ تو ایک طویل قصہ ہے اور میرے ان پچاس سال کے سفر، تبلیغ اور لوگوں کے رویے کی داستان بھی بہت لمبی ہے، لیکن ایک بات جو میں اس وقت  آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں، وہ میں خود اُن لوگوں سے سیکھ کر آیا ہوں جنہیں میں تبلیغ کرنے گیا تھا‘‘۔ 
اب اُس نے ایک گہری سانس لی اور پھر کہنے لگا،  “ میرے بزرگو، میرے ہم عمرو، میرے عزیزو، سنو! ، غور سے سنو، جو میں
کہنے لگا ہوں یہی میرے پچاس سال کے تبلیغی سفر کا نچوڑ ہے‘‘۔  سبھی لوگ ہمہ تن گوش تھے اور معمر مبلغ کے فرمان کے منتظر تھے ۔
معمر مبلغ نے اپنا جبہ درست کیا اور اپنی دستار سر پر سجائی اور لمبی  ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا،  “ میں ایک دن  دوردراز کے ایک ایسے گاؤں میں گیا جہاں لوگ ایک میت کو دفنانے جا رہے تھے ۔ میں بھی جنازے کے ساتھ ساتھ ہو لیا اور پھر قبرستان پہنچنے پر میت کو لحد میں اتارنے کے لیے میں بھی دوسروں کے ساتھ شامل ہو گیا ۔ یہی پر میں لوگوں کی نگاہ میں آگیا اور وہ ایک مبلغ ہونے کی میری حیثیت کو جان گئے اور مجھے عزت و تعظیم سے نوازا ۔  میت کو دفن کرنے کے بعد جب سب لوگ قبرستان سے واپس گاؤں جانے لگے تو مرحوم کے لواحقین نے مجھے بھی  اپنے ساتھ لے لیا اور اپنے ہاں شب بسری کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی ۔  میں اُن کے ہاں تین دن تک رہا لیکن میرے بزرگوں میرے ہمعمرو اور میرے عزیزو! اب جو کچھ میں تمھیں بتانے والا ہوں ، سنو گے تو کانپ جاؤ گے!،  وہ شخص جو میرا تھا وہ بڑا بدعتی اوربڑا ستمکار تھا۔ یہ بات مجھے اُس کے لواحقین کے پڑوسیوں نے بتائی تھی ۔ وہ نہ کبھی معبد میں جاتا تھا اور ہی اُس نے خداوند کے حضور کبھی کوئی قربانی دی تھی ۔ وہ گاؤں کے لوگوں کو ان کے عبادت گذار ہونے پر طعنے بھی دیا کرتا تھا، اور اب سنو!،  جب اُس کے لواحقین اسے دفنانے کے بعد دوسرے دن الصبح دستور کے مطابق اس کی قبر دیکھنے گئے تو انہوں نے اُس کی میت کو قبر کے باہر پڑا ہوا پایا، ارض خدا نے اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا ۔ اب لواحقین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میت کے ساتھ کیا کیا جائے۔ بالآخر انہوں نے اسے قبرستان کے ساتھ بہنے والے دریا میں پھینک دینے کا فیصلہ کیااور یہ کام کر کے واپس گھر لوٹ آئے ۔  اب اگلے دن الصبح وہ دریا کے کنارے وہاں پہنچے جہاں سے انہوں نے میت کو دریا میں پھینکا تھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور توبہ استفسار پڑھنے لگے کہ دریا نے بھی اس کی میت کو قبول نہیں کیا تھا اور اُسے کنارے سے باہر پھینک دیا تھا ۔ اب وہ بہت پریشان تھے کہ میت کو کہاں ٹھکانے لگائیں، زمین نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور دریا نے بھی اسے باہر پھینک دیا تھا ۔ وہ اسی پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ اُن کے ایک برزگ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ میت کو جلا دیں کہ یہی خداوند کی مرضی ہے ۔  پہلے تو وہ گبھرائے لیکن جب خاندان کے دو تین دوسرے بزرگوں نے بھی اس پراتفاق کیا تو انہوں نے ایک چتا جلائی اور میت کو اس میں پھینک دیا۔“ معمر مبلغ تھوڑی دیر کے لیے رکا، اپنا گلا صاف کیا اور پھر بولا؛  “ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، جب انہوں نے میت کو چتا میں پھینک دیا تو جانتے ہو کیا ہوا!، چتا کی ساری لکڑیاں جل کر راکھ ہوگئیں لیکن اس بدعتی کی میت جوں کی توں رہی، اسے آگ نے بھی قبول نہیں کیا تھا ۔ میرے بزرگو، میرے ہمعمرو، میرے عزیزو، تم سب اس سخت سردی میں اتنی رات گئے، میری پکار پر یہاں آئے ہو اور جاننا چاہتے ہو کہ میں  نے پچاس سال کے عرصے میں کیا تبلیغ کی ، کیا دیکھا اور کیا سیکھا،  توآج جب میں اسی پچاسی سال کا کمزور بوڑھا ہو گیا ہوں اور ابھی جو ایک سچااور چشم دید واقعہ میں نےآپ کو سنایا ہے، اُس کے نتیجے میں میری تبلیغ کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم سب بدعت و ستم کاری سے دور رہیں، ان سے توبہ کریں، نیک و راستباز بنیں اور خدا کی مقدس کتاب اور اُس کے رسولوں کے فرمودات پر عمل کریں تاکہ، ہم جب مریں اور زمین اگر ہمیں  اپنے اندر نہ سمیٹے  یا دریا ہماری میتوں کو اچھال کر باہر  پھینک دیں تو کم سے کم آگ تو ہمیں جلا کر راکھ کر دے ۔ آمین ۔