محبت ممنوع ہے !

محبت ممنوع ہے
از:  نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن  ۔ ڈنمارک
 کیا جنگ کے دوران محبت کرنے کے لیے وقت ہوتا ہے؟  یقیناً جنگ میں کوئی کسی دشمن سے تو محبت کر ہی نہیں سکتا ۔  زمانہ ٔ جنگ میں یہ ایک گناہ ہی تو ہوتا ہے، گناہ یا جرم! لیکن

 

ایک دوست یا محبوبہ کے ساتھ محبت؟ دوسروں کے سامنے کسی دوست یا محبوبہ سے بھی محبت نہیں کی جا سکتی ۔ جنگ کے دوران تو صرف احکام کی بجا آوری ہر ایک کا ایسا قومی فریضہ ہوتا ہے جسے پورا نہ کرنے والا ایسے جرم یا گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا صرف موت ہی ہوتی ہے ۔ مقامی چھوٹے کمانداروں اور خاص کر محاذ جنگ پر اگلی صفوں کے بڑے کمانداروں کے سامنے  ”  کسی ایک کا کسی دوسرے کے لیے محبت کا اظہار”  اس کے خلاف شکوک و شبہات کی بنیاد اور اس کے کم ہمت ،  ڈرپوک اور جنگ سے بیزاریا خائف ہونے کی دلیل کے زمرے میں آ سکتا ہے ۔  جنگ کے زمانے میں خود کسی کو اپنے محسوسات یا اپنی خواہشات کا نشانہ نہیں بننا چاہیے بلکہ لازم ہے کہ ہر کوئی احکام کی پابندی کرے اور اگر کوئی احکام کی پیروی نہیں کر سکتا تو اسے اپنے جذبات و محسوسات کو احکام کے تابع لانا چاہیے ۔ اُن کے ہاں حاکموں نے یہی جنگی اصول اپنا رکھے تھا ۔ ثاقب اور صوفیہ کے لیے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہو پا رہا تھا ،  حالانکہ وہ دونوں اچھی عمر کے تھے۔ ثاقب پچیس سال کا اور صوفیہ بائیس برس کی تھی ۔
 ملکی آزادی و تحفظ کی جنگ میں ثاقب زخمی ہو کر اس حد تک مفلوج ہو چکا تھا کہ اب اسے اپنی باقی ماندہ تھوڑی سے زندگی  ”  ویل چیئر ” پر ہی بسر کرنی تھی ۔ انسانی ہمدردی ایک دو تنظیموں نے اسے اپنے ملک سے باہر نکالنے اور کسی دوسرے پُرامن ملک میں پہنچانے اور وہاں پناہ دلوانے میں مدد مہیا کی ۔ صوفیہ پہلے ہی سے اپنے خاندان کے ساتھ یہاں رہ رہی تھی ۔  ان دونوں کی ملاقات بھی یہیں نے ملک میںہوئی جو ایک دوسرے کے لیے دوستی میں بدل گئی تھی ۔
 اِ س نئے ملک میں وہ دونوں اکثر و بیشتر ایسے مظاہروں میں اکٹھے شامل ہوتے جو اُن کے آبائی ملک کے خلاف جاری جنگ کے خلاف ہوتے تھے۔   ثاقب کو اِن مظاہروں میں دوسروں کے لیے ایک مثال بلکہ عبرت کے لیے لے جایا جاتا تھا ۔ جنگ نے اُس کی دونوں ٹانگیں مفلوج کر دیں تھیں اور خود اس نے اپنے لیے اور لوگوں کے لیے اپنی زندگی خود پر بھاری کر لی ہوئی تھی ۔ صوفیہ دیکھنے میں خافی خوبصورت اور پُر کشش تھی ۔ مظاہروں کے دوران وہی ثاقب کی ، ویل چیئرمضبوطی سے تھامے آگے آگے چلاتی جاتی اور ثاقب پر نگاہ بھی رکھتی تھی ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی گردن جھکا کر ثاقب کے چہرے کو بھی دیکھتی اور اُس کے اندر چُھپے ہوئے درد و کرب کو محسوس بھی کرتی اور ساتھ ساتھ اُسے  ” ویل چیئر ”  پر مضبوطی سے بٹھائے رکھنے کے لیے رُک کر اس کی بے جان ٹانگوں کو ادھر اُدھر کرتی اور اُسے پہلو بدل کر بیٹھنے میں مدد بھی کرتی تھی ۔  ” ثاقب ! بس تم سیدھے آگے دیکھو، ہاں ! ناک کی سیدھ میں بالکل سامنے!!”  وہ اُسے ہدایات بھی دیتی  ۔
  صوفیہ کئی بار ثاقب کو ایسے موقعوں پر بھی ویل چیئر  پر گھمانے پھرانے لے جاتی تھی جب کوئی مظاہرے وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔  وہ اسے شہر کے کیفے ٹیریوں یا تفریح پارکوں میں لے جاتی اور پھر وہاں بیٹھے وہ گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ۔  اپنے وطن کی باتیں ،  سیاسی حالات پر بحثیں اور پھر اپنے بارے میں باتیں ۔  کئی بار وہ اُسے اپنے ساتھ اپنے گھر بھی لے گئی اور اُس کے والدیں بھی ثاقب کے لیے یوں فراخدلی اور پیار کا اظہار کرتے جیسے وہ اُن کا اپنا ہی بیٹا ہو ۔  آخر وہ بھی تو ایک ہیرو تھا ۔  اُن کے اپنے ملک کا جنگی ہیرو!  اور پھر ایک دن ثاقب نے صوفیہ کے باپ سے  اپنے لیے صوفیہ کا رشتہ مانگا تو پہلے تو اُس نے اُسے کھا جانے والی  گہری خاموش نظروں سے یوں دیکھا کہ جیسے اُسے اپنی سماعت پر یقین ہی نہ ہو کہ اُس نے وہی کچھ سنا تھا جو
 ثاقب نے کہا تھا ، اور پھر فوراً ہی اُس کا غصہ یوں اُمنڈ آیا گویا وہ  میدان جنگ میں ہو ۔  ” میرا داماد،  ” ویل چیئر ”  پر بیٹھے رہنے اور  دوسروں کا دست نگر، محتاج اپاہج ہوگا”  اس نے سوچا۔  ” یہ تو میرے خاندان کے وقار اور میری بیٹی کے معیار و عزت کے سراسر خلاف ہوگا۔”  اُس نے صوفیہ کو دوسرے کمرے میں جانے کو کہا اور اپنے چھوٹے بیٹے کو بلایا۔  ”  اِسے اِ س کی ویل چیئر سمیت، اس کے گھر چھوڑ آؤ ، اور ہاں تم یاد رکھو کہ صوفیہ آئیندہ تمھاری صورت نہ دیکھے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا کہ تم اس گھر میں کبھی آئے ہی نہیںہو، یہ بات تمھیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے ۔”  وہ ابھی تک تاؤ پیچ کھا رہا تھا ۔ صوفیہ کو اُس کے کمرے میں بند کردیا گیاتھا اور اُس کی ماں کمرے کے دروازے کے باہر، سر جھکائے ،  بت بنی بیٹھی تھی ۔
 شام کو صوفیہ کے باپ نے، اُس کی ماں کے ساتھ بات کرکے صوفیہ کو سزا دینے کے لیے اُس کی شادی فوری طور پر ایک دوسرے آدمی سے کر دینے کا فیصلہ کیا جو انہیں کے قبیلے سے تھا اور اسی شہر میں رہتا تھا  ۔ وہ انہیں کی طرح  مہاجرتو تھا ہی لیکن ثاقب کی طرح اپاہج و مفلوج نہیں تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتے  تھے کہ اتنے مختصر سے وقت میں کیا ہو چکا تھا ۔ صوفیہ اپنے کمرے کی کھڑکی سے بھاگ گئی تھی اور سیدھی ثاقب کے مکان پر پہنچ کر اسے جلدی سے ویل چیئر پر بٹھاکر قریبی پولیس اسٹیشن لے گئی تھی ۔  جہاں اُن دونوں نے اپنے لیے ”تحفظ کی فراہمی ” کی استدعا کی اور مقامی پادری کے ہاں پناہ کے لیے مدد مانگی جو فراہم کردی گئی ۔ اب نصف شب سے پہلے اُن دونوں کی شادی ہو چکی تھی ۔ 
 اُدھر صوفیہ کے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا اور اُس کا باپ اپاہج ثاقب کی تلاش میں سر بگراں تھا ۔ محلے کے تمام مہاجر کنبوں کے مَردوں میں حرکت آگئی تھی اور وہ ایک ”اکائی کی صورت میں یکمشت  ”جنگ زدہ ”  ثاقب کی کھوج میں نکل پڑے تھے ۔ ان سب کی رہنمائی ایک بوڑھا مہاجر کر رہا تھا جو خود اپنے ملک میں محاذ جنگ پر ایک بڑا کماندار رہ چکا تھا اور دشمن کی گولی لگنے سے اپنی دائیں آنکھ کھو چکا تھا ۔ اُس کے بارے میں اُس کے سبھی ہموطن اس بات پر متفق تھے کہ کچھ بھی ہو کماندار ہر کسی کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور اُس کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ صوفیہ اور ثاقب کی تلاش کا یہ سلسلہ بڑی رازداری کے ساتھ کئی دنوں تک جاری تو رہا لیکن اُن دونوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔ اور پھر ایک دن شہر کے مضافات سے ایک اور مہاجر جو یہاں نئے ملک میں آنے سے پہلے اپنے ملک میں ایک مقامی کماندار کا ماتحت رہ چکا تھا اور یہاں ” چھوٹا کماندار”  کے نام سے جانا جاتا تھا، وہ یک چشمی  بڑے کماندار بابا کے ہاںآیا اور اُسے بتایا کہ اُس نے ثاقب اور صوفیہ،  دونوں حرامیوں کا سراغ لگا لیا ہے ۔ بڑا کماندار اسے اپنے ساتھ لے کر صوفیہ کے باپ کے گھر پہنچا اور پھر صوفیہ کے باپ نے اپنے دونوں چھوٹے بیٹوں کو محلے میں رہنے والے اپنے ہموطنوں اور اپنے ملک کی آزادی و تحفظ کا دفاع کرنے والے مہاجر سابق جنگوؤں کو بلا لانے کے لیے بھیجا ۔
 اگلے دن الصبح پولیس کی ایک بھاری نفری شہر کے باہر مضافات میں ایک پرانے نالے کے دونوں کناروں پر کھڑی تھی اور کچھ غوطہ خور نالے سے دو لاشیں باہر نکال رہے تھے ۔ پولیس کو کسی مقامی شہری نے نالے پر کچھ انہونی کے ہونے کی اطلاع دی تھی، جس کے بعد یہ کارروائی کی گئی ۔ لوگوں کی بھیڑ میں کھڑا ایک اخباری فوٹو گرافر کیچڑ میں لت پت دونوں نعشوں کی تصویریں اتار رہا تھا ۔ وہ اِن میں سے ایک کو بڑی اچھی طرح سے پہچانتا تھا ۔  ” یہ تو اُسی جنگی ہیرو، ثاقب کی نعش سے جسے علاج ا ورآباد کاری کے لیے خود ہماری حکومت یہاں لائی تھی اور جو امن مظاہروں میں پیش پیش رہتا اور صفِ اول میں ہو تا تھا ۔”  فوٹو گرافر اپنے قریب کھڑے پولیس افسر سے کہہ رہا تھا ۔ ثاقب اور صوفیہ کی نعشیں اب ایمبولینس میں رکھی جا رہی تھیں لیکن ثاقب کی، ویل چیئر ٫ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ، البتہ اُدھر ذرا فاصلے پر کھڑا وہی بوڑھا یک چشمی کماندار بابا کھڑا کچھ یوں دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو کہ ” جنگ میں اپنے جذبات و احساسات احکام کے تابع رکھنا لازمی ہے !”

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.