ضمیر کا سوال!۔

ایک مختصر کہانی ۔

ضمیر کا سوال!۔
 نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن  ۔ ڈنمارک
ایک گھبرایا ہوا  وکیل استغاثہ اور اس کے مقابلے میں ایک بہت ہی مطمئن وکیل دفاع ریڈیو کے سٹوڈیو میں ’’ ضمیر ‘‘  کے سوال پر بحث کے لیے مدعو تھے۔بحث کا بندوبست کرنے والے صحافی نے اس موضوع کی مناسبت سے خوب تیاری کررکھی تھی ۔  اور اس نے ان دونوں سے پوچھے جانے والے اپنے سوالات کو بھی بڑی ہوشیاری سے ترتیب دے رکھا تھا :
جب ایک وکیل استغاثہ یا وکیل دفاع کی حیثیت میں کوئی دفاع کرتا ہے اور سزا دلوانے یا بری کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا ان دونوں صورتوں میں خود اُن دونوں پر کچھ قصور وار یا بے قصور ہونے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ؟ اور کیا اُن میں سے ایک اپنی ’’ فتح ‘‘ کو دوسرے کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے  ’’ فیصلے ‘‘ کو اپنے مستقبل کی کامیابی میں پیشرفت تصور نہیں کرتا ؟ اور اس صورت میں کیا کہیں اسے کچھ ضمیر کی خلش محسوس ہوتی ہے؟  صحافی نے سوال کیا ۔
وکیل استغاثہ اور وکیل دفاع ‘ دونوں نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھا ۔ صحافی نے بڑی تیزی سے وکیل استغاثہ کی طرف اشارہ کیا :
‘ مجھے اپنی یادداشت پر انحصار کرنا ہوتا ہے کہ اصل دعویٰ کیا ہے!‘  کیونکہ معاملے بگاڑنے میں وکیل دفاع بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘  وکیل استغاثہ بولا۔ ’’یعنی معاملات اپنی نوعیت میں ایک بہت ہی اہم اور عجیب قسم کے ہوتے ہیںاور کچھ وکیل دفاع بھی انھیں الجھا دیتے ہیں  ۔ اور ان کی صورت حال کچھ اتنی گھمبیر اور عجیب ہو چکی ہوتی ہے کہ پھر صرف جج ہی اسے بہتر اور اس سے نکلنے کی راہ  بنا سکتا ہے  ‘‘۔
وکیل دفاع نے اپنی گردن نیچے اوپر ہلائی اور بولا :
’’ میں اس میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی مقدمے کے معاملے میں صورت حال کبھی غلط نہیں ہوتی  اور غلط ہوتی بھی ہو تو اس غلطی ہی کوتو دور کیا جانا ہوتا ہے ۔  اس عمل میں کئی باتیں سامنے آسکتی ہیں ۔  اور ان سب کے لیے قوائد و ضوابط بھی تو ہوتے ہیں ۔ یہ قوائد و ضوابط کیا ہیں؟ ‘‘  ابھی وکیل دفاع مزید کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ صحافی بول پڑا  :
’’ ہاں ! میں یہ سب کچھ سمجھتا ہوں ‘ لیکن آپ نے  میرے اصل سوال کا جواب تو دیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔  ضمیر کا سوال؟  کیا آپ کے ضمیر نے آپ کو اس وقت کبھی ملامت نہیں کی جب ‘ جج ‘ جرح کے دوران آپ کی یاددہانیوں کو بنیاد بنا کر اور کچھ خود جو کچھ وہ سوچ سکتا ہے اسے مد نظر رکھ کر  یا پھر کچھ تحفظات کے ساتھ مشروط یا غیر مشروط فیصلہ سنا دیتا ہے یا اسے اپنے فیصلے کے بارے میں خود اس کے درست یا غلط ہونے کے متعلق شک و شبہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں آپ کا ضمیر کیا کہتا ہے؟ ‘‘
’’ فیصلہ تو ہمیشہ جج ہی کا ہوتا ہے ۔‘‘  وکیل استغاثہ اور وکیل دفاع دونوں ایک ساتھ بولے ۔
’’ تو پھر آپ کے ضمیر یا شعور باطنی میں اس پر کبھی کوئی رنج و افسوس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا ہو گا؟ ‘‘  صحافی نے پوچھا ۔
وکیل استغاثہ اور وکیل دفاع دونوں نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن جواب دینے میں وکیل دفاع نے پہل کی :
’’  ضمیر تو تبھی محسوس کرتا ہے جب کوئی فیصلہ اُس کے مؤ کل کے خلاف ہو تا ہے ۔  اور اس فیصلے پر شک و شبہ ہوتا ہے ۔  تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ کرنے والے نے اپنا کام بہتر طور پر نہیں کیا ۔  اور یہی مرحلہ دفاع کے کسی وکیل کے لیے خراب ترین ہوتا ہے ۔ وکیل استغاثہ کے لیے یہ لمحہ آسان ہو تا ہے ۔  ایسے وقت پر پھر وکیل دفاع یہ بھی سوچتا ہے کہ وہ تو اپنے مؤکل کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر چکا ہے ۔ ‘‘
صحافی نے ’’ضمیر کی ملامت کے متعلق ‘‘  اب اپنے سوال کو ایک نئے انداز سے دہرانے کی کوشش کی :
 
’’ اگر جج کے فیصلے پر شک و شبہ ہو تو پھرتو یہ بالکل  ’’ انصاف کا قتل ‘‘  ہی کہلا سکتا ہے !  میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس صورت میں کسی اناڑی کے کیے
 ہوئے کام کو دوبارہ درست کیا جاسکتا ہے ۔ میں یہاں کوئی ٹھوس مثالیں پیش کرکے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ آپ دونوں یقینا ایسے کئی معاملات سے آگاہ ہونگے ۔ لیکن آپ وکیلوں نے بھی کبھی ایسا کیا ہے کہ آپ میں سے اپنے مؤکل کا مقدمہ ہارنے والا خود یہ تسلیم کرلے کہ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ مقدمہ ہی غلط تھا یا وہ خود اناڑی نکلا؟ ‘‘  صحافی اب اپنی نظریں دونوں وکیلوں کے چہرے پر جمائے ہوئے تھا ۔
وکیل دفاع اور وکیل استغاثہ اب ایک دوسرے کو دیکھنے اور مسکرانے کی بجائے سامنے بیٹھے صحافی سے بھی نظریں چرا رہے تھے اور اُن میں سے ابھی تک کوئی کچھ نہیں بولا تھا ۔ انہیں شاید ایسا کوئی واقعہ یاد ہی نہیں آرہا تھا یا پھر وہ اس طرح کے کسی  واقعہ کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہتے تھے جس میں کسی معاملے کے بارے میں نئے شواہد سامنے آنے کے بعد اسے سماعت کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا ہو اور اُس پر پہلے فیصلے سے ہٹ کر نیا فیصلہ سنا دیا گیا ہو ۔
اُن دونوں کی خاموشی میں صحافی نے ایک بار پھراپنی قابلیت آزمانے کی کوشش کی :
’’ آپ دونوں کس بات کو سب سے زیادہ مقدم اور ضروری سمجھتے ہیں‘  مقدمہ جیت جانا یا عدل وانصاف کا ہونا؟‘‘
’’ اِن کا آپس میں کیا فرق ہے؟ ‘‘  وکیل دفاع بڑی تیزی سے بولا ۔
’’ عدل و انصاف کیا ہے؟‘‘  وکیل استغاثہ نے پوچھا ۔
’’ یہ تو خود وہی فیصلہ ہوتا ہے جو سنا دیا جاتا ہے لیکن جو انصا ف نہیں ہوتا ۔‘‘ صحافی کے لہجے میں سوالیہ طنز بھی تھی ۔ 
’’ وہ جو غیر منصفانہ طور پر انصاف کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں  یا پھر بری الذمہ قرار دے دیے جاتے ہیں ۔ ان کے اس مقدر میں وکیل استغاثہ یا وکیل دفاع کی کوششوں کا بھی تو حصہ ہوتا ہی نا ؟‘‘  صحافی اب جواب کا منتظر تھا ۔
دونوں وکیلوں نے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر وکیل استغاثہ اپنا گلا صاف کرتے ہوئے بولا :
’’  عدالتی نظام ‘  انسانوں کا کام ہے اور اسی وجہ سے یہ   ’’  کامل و کُل  ‘‘  نہیں ہے ۔  لیکن قانون کی لغت یاد ہونے کے باوجود بھی انصاف و عدل کے متعلق تو ایک لفظ بھی نہیں بولا جا سکتا ۔
’’ شاید عدل و انصاف پر؟  ‘‘  صحافی نے پہلو بدلتے ہوئے اس کی بات کاٹی ۔
’’ اگر کوئی معاملہ کسی اناڑی کا ہو ‘  وہ جسے غیر منصفانہ کیا جاتا ہے تو ‘  پھر یہ ممکن ہے کہ معاملے پر بھر پور طریقے سے پوری توجہ دی جائے اور عموماً یہی ہوتا ہے یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے وہ توجہ دی ہی نہ ہو جو ضروری ہو ۔  وکیل دفاع بولا۔ 
’’ یہ وکیل استغاثہ یا وکیل دفاع بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘  دونوں وکیل ایک ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ۔
’’ کیا کوئی اپناکام بھلائی کے لیے کر سکتا ہے ؟ ‘‘  صحافی نے اُن کے قہقہے کو نظر اندازکرتے ہوئے پوچھا ۔
وکیلوں نے شاید اس کا سوال نہیں سنا تھا یا وہ سمجھ نہیں پائے تھے ۔
’’ میرا مطلب ہے کہ کوئی ایک مقدمہ جیتنا کیا ایک کھیل نہیں ہوتا ؟ ‘‘  صحافی کچھ زور دیتے ہوئے بولا  ۔
’’ ہاں اسے ایک کھیل کہا جا سکتا ہے ۔ ‘‘  وکیل دفاع بولا ۔  ’’ کھیل بھی تو قوائد و ضوابط پر ہی کھیلے جاتے ہیں ۔  فٹ بال میں بھی تو ایک جج یعنی ریفری ہوتا ہے جو فیصلے کرتا ہے ۔  وہی تو فیصلے کی قوت رکھتا اور اس کا مجاز ہوتا ہے ۔  بیشک تماشائی اور خاص کر گھروں میں ٹیلی ویژن دیکھنے والے ‘  دیکھ سکتے ہیں کہ وہ غلط فیصلہ کر رہا ہوتا ہے ۔ ‘‘  وکیل دفاع اور وکیل استغاثہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن صحافی نے اپنی بات جاری رکھی ۔
’’ اگر کوئی ایک اچھا وکیل استغاثہ ہے اور کوئی ایک اچھا وکیل دفاع‘  تو ہم جانتے ہیں اور آپ خود بھی جانتے ہی ہیں کہ جج کا فیصلہ غلط بھی تو ہو سکتا ہے ۔ یعنی  ایک نا جائز کو جائز اور جائز کو نا جائز قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ‘‘  صحافی نے اپنی بات جاری رکھی ۔ ’’  میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب جائز کو
 ناجائز اور ناجائز کو جائز قرار دے دیا جاتا ہے تو کیا آپ کا ضمیر اس پر کبھی آپ کو ذرہ بھر بھی ملامت نہیں کرتا ؟ ‘‘
اب جواب دیتے ہوئے وکیل استغاثہ کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی ۔
’’   انصاف و منصفی تو اپنے آپ میں ایک حقیقت ہے ۔  ہمیں تو بس اسے تلاش کرنا ہوتا ہے ۔  جائز و ناجائز یا پھر بے قصور اور قصوروار کے درمیان  صورت حال ہمیشہ بہت پیچیدہ ہوتی ہے ۔ اور باکل ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ گواہوں کے بیانات اور بحث و جرح سے ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ۔  اور یہی وہ  لمحات ہوتے ہیں جہاں یہ دعویٰ کیا جانا ہوتا ہے کہ کوئی قصور وار یا بے قصور ہے!  ‘‘  وکیل استغاثہ کے چہرے سے اب اطمینان ظاہر ہو رہا تھا اور اس کا ضمیر بھی شاید صاف ہی تھا ۔  ’’ منصفی کو مقدم رکھنا اور انصاف کو پانا ہی تو استغاثہ کے وکیل کا کام ہوتا ہے ۔‘‘  وہ بولا ۔
’’ معاف کرنا ! ‘‘  صحافی اس کی باٹ کاٹتے ہوئے بولا  ۔  ’’  تو کیا یہ بذات خود ایک سوال نہیں کہ وکیل استغاثہ جب اپنے مخالف کے خلاف دلائل پیش کر رہا ہوتا ہے تو اسے اپنے وجدان شعوری اور ضمیرکو  باہر رکھ کر ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جس کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے وہی اصل گناہگار ہے؟‘‘
’’  نہیں ! معاف کرنا ‘  یہ اُن لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے جو ہر وقت ضمیر اور شعوری وجدان کی باتیں کرتے رہتے ہیں ! اگر یہ اتنا آسان ہو تا کہ کوئی فرد قصور وار ہے یا بالکل بے قصور ہے تو پھر ہر کوئی جان سکتا کہ گناہگار کون ہے اور کون بے گناہ ہے ۔ اور ایسی حالت میں عدالت کی کوئی ضرورت ہی نہ رہتی ۔ استغاثہ کی تو شروعات ہی یہاں سے ہوتی ہے کہ کٹہرے میں لایا گیافرد یقیناقصور وار ہے ۔ اور اپنا یہ مؤقف پیش کرتے ہوئے استغاثہ کوئی غلطی نہیں کررہا ہوتا اور اگر کچھ معمولی سے غلطی ہو بھی جائے تو کوئی بات نہیں کیونکہ آخر خطاکار تو ہر کوئی ہوتا ہے بے خطا تو کوئی ہے نہیں !‘‘
صحافی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وکیل دفاع نے مداخلت کی ۔
’’  وکیل دفاع کا نکتہ آغاز ہی استغاثہ سے متضاد ہوتا ہے ‘  یعنی کہ استغاثہ جسے قصوروار گردان رہا ہوتا ہے وہ باکل بے قصور ہے ۔  اور ہو سکتا ہے کہ اُس سے کوئی ایک خطا سرزد ہو گئی ہو لیکن کہیں یہ تو نہیں کہا گیا کہ خطا نہیں ہو سکتی یا ہر کوئی خطاوارنہیں ہو سکتا ۔  اور یہی وہ صورت حال ہوتی ہے جسے ہر لمحہ مد نظر رکھا جانا چاہیے اور ایسا ہوتا بھی ہے ۔  ایسے معاملے میں ماحولیات ‘  خاندانی پس منظر ‘  اورخاندان کی کمی وغیرہ جیسی باتوں پر توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ ان ہی کی وجہ سے تو صورت حال کی حقیقی عکاسی کی جا سکتی ہے ……………   ۔‘‘
اس موقع پر صحافی بڑی تیزی سے وکیل دفاع کی بات  کاٹتے ہوئے بولا  ’’  ہاں‘  لیکن اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایک بے گناہ خود کو گناہگار بنا لے اورقصور وار خود کوبے قصور ٹھہرا لے ؟ ‘‘
’’ ہاں !  یقینا ‘ ‘  وکیل استغاثہ بولا  ۔’’  یقینا سبھی اپنے کئے کے قصور وار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ تو پھر اپنی ذمہ داری سے فرار ہونے کے مترادف ہی ہو سکتا ہے جو کہ ہوا نہیں جا سکتا۔ ‘‘
’’ اور یہی وجہ ہے کہ دوسرے جو کچھ کرتے ہیں اس کی ذمہ داری بھی سبھی پر آتی ہے ۔ آج کل کوئی ایک بھی تو ایسا نہیں جو پوری ذمہ داری خود قبول کرے  ۔ ‘‘  وکیل دفاع نے مداخلت کرنی چاہی ہی تھی کہ صحافی نے اس کی بات کاٹ دی اور وکیل دفاع کی جانب اپنی گردن جھکاتے ہوئے بولا ۔
’’  ہاں ‘  اسی وجہ سے تو ایک قصور وار رہاہوجاتا ہے۔ پھر اس نے وکیل استغاثہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی گردن جھکائی اور بولا  ’’  اورآپ کا ضمیر  پورے شعوری وجدان کے ساتھ ایک بے قصور کو سزا دلوا کر مطمئن ہو جاتا ہے ۔‘‘
 وکیل دفاع اور وکیل استغاثہ  ‘ دونوں نے ایک ساتھ کچھ کہنا چاہا لیکن اس سنجیدہ بحث کا وقت یہیں پر ختم ہو چکا تھا۔ 

 # # # 

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.