جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں

December 23rd, 2009

جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں

از: نصر ملک  ۔ کوپن ہیگن ۔

ایک آدمی نے کسی نا کسی طرح جب اپنی ایجاد کا ‘مارک‘ رجسٹر کرا لیا تو اسے اُس نے اپنی پہلی کامیابی قرار دیتے ہوئے ایک بڑا مرحلہ طے ہو جانے سے تعبیر کیا۔ یہ واقعی میں اس کے لیے بہت بڑی بات تھی ۔ آخر اب اس نے ایک نئی انوکھی شے بنائی تھی لیکن وہ تو کسی بھی مقصد کے لیے کہیں بھی استعمال نہیں کی جا سکتی تھی ۔ روزمرہ کا استعمال تو بہت دور کی بات تھی، اسے تو کسی مقصد کے لیے بھی بروئے کار نہیں لایا جا سکتا تھا ۔ اس شےکو کاروباری بنیادوں پر تیار کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ، یہ بہت ہی مہنگا تھا ۔ اس نے اپنی اس ایجاد کو ایک کارخانے کے مالک کو دکھایا اور اسے کاروباری لحاظ سے تیار کرنے اور بازار میں لے جانے کے لیے مشورہ دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

گمنام سپاہی ۔ از: نصر ملک

December 19th, 2009

گمنام سپاہی

از: نصر ملک

کتنا عجیب ہے، ایک ‘‘ گمنام سپاھی ‘‘  کے نام سے پہچانا جانا
میری خواہش تھی کہ میں بھی شہرت پاتا
میرا بھی ایک نام ہوتا
میدان جنگ میں فتح مندی پاتا ، دشمن کی قوت کا فخر و گھمنڈ خاک میں ملا دیتا
میں نے دشمن کو تو دیکھا ہی نہیں، صرف اس کا نعرہ ھی سنا تھا
میں اس کے گرنیڈ سے زمین پر گر پڑا
مسخ شدہ چہرے کے ساتھ،  بالکل ناقابل شناخت حالت میں
اسی لیے مجھے اسی حالت میں دفن کرکے،  ایک ‘‘ نامعلوم سپاہی‘‘  کے نام سے
سر بلند کردیا گیا، ایک ‘‘ گمنام سپاہی!‘‘، بے نام روح

اس مختصر سے لمحے میں، میں نے اپنی مختصر سے زندگی پر نگاہ ڈالی
ان سب کو دیکھا، جنھیں میں جانتا تھا اور جو مجھے جانتے تھے
میں!، چھوٹا سا بچہ، ‘‘ سپاہی، سپاہی‘‘ کا کھیل کھیلتے بوئے
کھیلتے کھیلتے جوان ہوا، یہاں تک کہ ایک ‘‘ اصل سپاہی‘‘ بن گیا
میرا یہی سپاہی ہونا ہی میری پہلی اور آخری محبت تھی
محبت!جسے میں نے تھامے رکھا اور جس نے مجھے سمیٹے رکھا
لیکن میں!،  میں گمنام سپاہیوں کی صفوں میں گم ہو گیا
جنت کے فرشتوں جیسی سفید قبا اوڑھے، اڑنے والے گھوڑے پر سوار
سنہری چمکدار جگہوں سےگزرتا ،  میں آسمانوں کی بلندوں میں
خود کو تلاش کر رہا تھا، لیکن
میں بھی تو دوسروں ہی کی طرح تھا
ایک تابوت میں بند، مسخ شدہ لاش
جس نے اپنی زندگی گزاری ہی نہیں تھی

اس مختصر سے لمحے میں
وہ میں ہی تو تھا جس کے پرخچے اڑ گئے تھے

میں رضاکاروں میں خود شامل ہوا تھا
امن بہترین نہیں ہے ، ہم فراموش کر چکے ہیں کہ
زندگی ‘‘جہد مسلسل‘‘ ہے، اور اس کا
پہلا معرکہ ‘‘ زندگی ‘‘ ہی  ہے

میں چاہتا تھا کہ میں بھی جانا جاؤں
وہ خود کو سکھانا چاہتا تھا کہ
وہ  تمام محسوسات ،  جن سے میں محروم رہا
خود محسوس کروں
میں وہ سب کچھ برتنا چاہتا تھا، جو
میرے پاس تھا، لیکں میں آگاہ نہ تھا

میں جنگ میں اپنے آپ کو دوبارہ شناخت نہ کر سکا
یہ میرے محسوسات نہ تھے، جنھیں میں نے محسوس کیا
یہ میری زندگی نہ تھی جیسے میں نے کھو دیا تھا
یہ تو صرف ایک ‘‘ گمنام سپاہی ‘‘ تھا
فقط ایک ‘‘ گمنام سپاہی !‘‘۔

از؛  نصر ملک  ۔ کوپن ھیگن

 

نومبر کی ایک شام، سفیر اردو کے نام ۔

December 13th, 2009

ایک شام، سفیر اردو کے نام ۔

NASIR
از:   ناصر شمسی ۔ کراچی

ڈنمارک سے تشریف لائے ہوئے معروف و ممتاز ادیب و صحافی اور براڈ کاسٹر جناب نصر ملک کے اعزاز میں ، اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کی جانب سے، ایک غیر معمولی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔

ADDRESSING

اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب آغا نور محمد پٹھان نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے نصر ملک کوسندھ کے ادیبوں کی جانب سے خوش آمدید کہا اور انھیں پاکستان اور اردو زبان کا سفیر قرار دیا ۔انہوں نے معزز مہمان کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ،  نصر ملک کا تعلق، پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے ہے اور وہ پچھلے سنتیس سال سے کوپن ہیگن میں مقیم ہیں ۔ شاعری و افسانہ نگاری کے حوالے سے ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آنے کے بعد شرف قبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔ اس کے علاوہ نصر ملک پچھلے پچیس سال سے ڈینش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن  کی اردو سروس میں بطور مدیر، سیاسی مبصر اور براڈ کاسٹر،  خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ جبکہ وہ  ڈینش سٹیٹ لائبریری میں، اردو زبان و ادب سے متعلقہ شعبے میں بطور لینگویچ کنسلٹینٹ بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں اور ڈنمارک میں تارکین وطن کے لیے، سٹیٹ لائبریری کی معلوماتی ویب سائٹ ٰ فنفو ڈاٹ ڈی کےٰ  کے مدیر بھی ہیں ۔

اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب آغا نور محمد پٹھان نے مزید  کہا کہ تحقیق کے شعبے میں نصر ملک نے، ڈینش اردو لغت بنانے کے لیے بڑا کام کیا ہے اور اپنی نوعیت کی یہ پہلی ڈینش اردو لغت عنقریب ہی منظر عام پر آنے والی ہے ۔  اور امید کی جا سکتی ہے کہ اس لغت کے حوالے سے ڈینش اور اردو زبان کے علاوہ دونوں ملکوں کے لوگوں اور دو مختلف تہذیبوں کو نزدیک آ کر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا ۔ نصر ملک نے  ڈینش ادب ٰکے اردو تراجم بھی کیے ہیں اور ان کی ترجمہ کردہ ڈینش اساطیر کے موضوع پر ایک کتاب ٰ دیوتاؤن کا زوالٰ ایک بے مثال ادبی کارنامہ ہے ۔
جناب آغا نور محمد پٹھان نے مزید کہا کہ نصر ملک نہ  صرف اردو بلکہ پنجابی، سندھی و پشتو ادب پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں بلکہ  وہ عالمی ادب اور عالمی ادبی اداروں سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور یوں انھیں عالمی اور اردو عصری ادب سے واقفیت حاصل رہتی ہے ۔ جو ان  کی اردو زبان و ادب کے فروغ اور احیا کے لیے کوششوں کو تازہ مواد میہاکرنے میں معاونت عطا کرتی ہے ۔

مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

اہل ادب کے درمیاں

December 6th, 2009

آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیر اہتمام ،  سترہ سے اکیس نومبر سنہ ۲۰۰۹ ٰ تک  دوسری عالمی اردو کانفرسٰ منعقد کی گئی ۔ اپنی نوعیت کی اس عظیم عالمی اردو کانفرنس میں، بنگلہ دیش سےلے کر ایران، متحدہ عرب امارات سےلے کر روس وکینیڈا،برطانیہ، ڈنمارک و جرمنی سے لے کر جمہوریہ چیک تک، امریکھ سے لے کرکئی افریقی ممالک تک کے مندوبین اور مزید پڑھنے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان آرٹس کونسل کراچی

December 6th, 2009

PB190580

پاکستان آرٹس کونسل کارچی کی جانب سے منعقدہ ااردو عالمی کانفرنس کے موقع پر، سٹیج پر جناب پروفیسر، سحر انصاری، معروف افسانہ نگار محترم انتظار حسین اور ڈنمارک کے مندوب، افسانہ نگار، نصر ملک اور دیگر احباب

KARACHI1

پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر، ڈنمارک سے شمولیت کرنے والے ادیب و شاعر، صحافی و براڈکاسٹر، نصر ملک کو پاکستان آرٹس کونسل کی جانب سے ٰ شال ٰ عطا کی گئی ۔

اس موقع پر لی گئی تصویر ٫ بائیں سے دائیں، افسانھ و ڈرامھ نگار، اقبال نظر، پاکستان آرٹس کونسل کے سیکریٹری جنرل، محمد احمد شاہ، نصر ملک ، ادیبہ و محقق ڈاکٹر فاطمہ حسن، پاکستان رائٹرز گلڈ سندھ کے سیکٹریری جنرل، احمد عمر شریف اور دیگر احباب، انتھائی دائیں کھڑےھوئے ، معروف افسانھ نگار، و محقق، زیب اذکار حسین ۔

PB190584

پاکستان آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے منعقدہ اردو عالمی کانفرنس کے موقع پر ڈنمارک کے مندوب، افسانہ نگار، صحافی و براڈ کاسٹر، نصر ملک، ڈنمارک میں اردو کے موضوع پر اپنا مقالھ پڑھ رہے ہیں ۔ 

محبت کا منتظر، خیالی محل ۔ از، نصر ملک ۔

December 5th, 2009

محبت کے متعلق بڑی خوش کن کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور بدقسمتی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔ محبت، خوشیوں بھرے طلسماتی قصوں سے بھی بھری ہوتی ہے اور دکھ دہ واقعات سے بھی ۔

محبت ہر شے کو فتح کر لیتی ہے ۔ اور جب انسانوں کو اس کی سخت تلاش ہوتی ہے تو یہ اس لیے نہیں کہ دینا پر کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہوتی ہے، نہیں!، بلکہ اس لیے کہ اس کی ضرورت اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے ۔ محبت کی تنگ دستی، اذیت دہ بھی ہوتی ہے اور اس کی
فراوانی، غیر منصفانہ بھی ہو سکتی ہے ۔ محبت کے دریا کا منبع ایک آنسو ہی تو ہوتا ہے جو تمام قوتوں پر بھاری ہوتا ہے ۔ خوشی کی قوتیں اور دکھ و غمی کی قوتیں ۔
محبت اندھا بھی کردیتی ہے، محبت میں مبتلا، دوسرے انسانوں کو نہیں دیکھ سکتا، اور  اپنے محبوب کےسوا دوسروں سے محبت نہیں کر سکتا ۔ محبت میں جس کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں وہ انسانوں کو دیکھ تو سکتا ہے محبت نہیں کر سکتا ۔
اندھی محبت تو محبت ہوتی ہی نہیں ۔ لیکن محبت کی ابدیت اور اس کا خواب، کون ہے جو نہیں چاہتا یا نہیں دیکھتا ۔ محبت کا تواتر، محبت کے خواب دیکھنے سے آگے تک جا سکتا ہے لیکن محبت کا خواب، محبت کے تواتر سے کہیں زیادہ لاجواب بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی محبت کے آغاز کا سرچشمہ بھی ۔ محبت کی ابدیت اور محبت کا خواب، ان دونوں میں سے کسی ایک کو پانے کے لیے، کسی دوسرے کا چاہنا اور اس سے محبت کرنا ضروری ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ پہلے خود اپنے آپ سے محبت کرننی پڑتی ہے ۔ محبت ہمیشہ دو کے درمیان شروع ہوتی ہے ۔ دو اجنبیوں کے درمیان ۔ دو خوابی اجنبیوں کے درمیان ۔ ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کے خواب نہیں دیکھ سکتا ۔ نہ خوشیوں بھرے خواب اور نہ ہی دکھ بھرے خواب ۔ ان کے اپنے اپنے خواب ہوتے ہیں۔ ایک کے اگر خوشیوں بھرے ہوسکتے ہیں تو دوسرے کےخواب دکھ دہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ نہ کوئی کسی کے دکھ لے کر اسے اپنے سکھ دے سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو اپنے سکھ دے کر اس کے دکھ خود لے سکتا ہے لیکن محبت میں تو دکھ سکھ سب سانجھے ہوتے ہیں، لیکن محبت ہوتو، آخر یہی محبت ہی تو سکھ دکھ دیتی ہے اور یہی تو ہوتی ہے جو دکھوں کا مداوا کرتی اور سکھ سمیٹی ہے ۔

روح کے اندر ، محبت کا ایک خوابی محل ہے،
جو ابھی خالی ہے اور، جس میں خواہشیں بھری جانی ہیں،
کرنے کا کام جو ابھی کیا ہی نہیں،
محبت!، محبت!!، محبت!!!،
احساسات جو ابھی ظہور ہی نہیں ہوئے،
محسوسات جن کا کہیں نام و نشان ہی نہیں،
آنسو جو ابھی بہے ہی نہیں،
محبت جو ابھی ہوئی ہی نہیں
ملاطفت و ناز برداری جو میسر ہی نہیں،
روح کے اندر ، محبت کا خوابی محل، کیسے بھرے،
جب سبھی دروازے بند ہوں، کوئی باہر دستک دینے والا
اور اندر سےدر کھولنےوالا ہی نہ ہو تو،
محبت کی طلسماتی کہانیاں، محبت کے متعلق نہیں ہو سکتیں،
التبہ وہ فتح پانے اور مفتوح کر لینے کے متعلق ضرور ہوتی ہیں،
فاتح اور مفتوح!، کی کہانیاں،
وہاں پر ختم ہوتی ہیں جہاں سے اصل محبت شروع ہوتی ہے ۔
ناکام محبت کے گیتوں کی سریں تو شاید، مجھے بھی اور تمھیں بھی یاد ہوں، لیکن
وہ روح کے اندر، محبت کے خوابی محل کا خالی پن
کیسے بھرا جائے
مجھے دیکھو، محبت کا طلبگار
تمھیں مجھ سے محبت کرنی ہے
مجھے دیکھنے لیے تمھیں مجھ سے محبت نہیں کرنی
ہاں محبت جو تمھیں دکھا سکے کہ، محبت دکھائی نہیں جا سکتی
دیکھو نا میں تمہی سےتو محبت کرتا ہوں
دیکھو میری محبت!۔ 

                                  نصر ملک ۔  کوپن ہیگن ۔

نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔

December 1st, 2009

بِلاس و بِلاپ

                       وہ دونوں، سکول و کالج ہی کے زمانے سے دوست تھے اور یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران اُن کی دوستی مزید مضبوط ہو گئی تھی ۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے تحریک پکڑتے اور پھر ان دونوں نے پہلے منگنی کی اور پھر بعد میں آپس میں شادی کرلی، اب اُن میں ایک دوسرے کی مدد کرنے میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔

                      وہ اُس کی جانب سے ہمیشہ کسی بڑے مقصد کی تلاش میں لگے رہنے میں زیادہ ساتھ نہیں دے سکتی تھی، لیکن جب اچانک اُس نےایک نظریے کو عملی طور پر پیش کرنے کا سوچا اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا تو، اُس نے اس کی خوب ہمت افزائی کی اور اُسے سب کچھ کرگزرنے اور اپنا مدعا پا لینے کے لیے متحرک کیا ۔

                       اُس نے تجویز پیش کی کہ اُن دونوں کو، اس کے متعلق مشترکہ ‘ مقالہ‘  لکھنا چاہیے ۔ اُس نے مقالے کا ابتدائیہ ایک تفصیلی مضمون کی صورت میں خود لکھا  لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ مقالے کا وہ بڑا حصہ جو اس نے خود لکھا تھا، وہ بھی اُسی کے نام منسوب ہو ۔ وہ خوش تھا کہ چلو اس کے اتنے بڑے کام میں، اُس کا ایک چھوٹا سا حصہ بڑے کام کی شے ہے اور اسی بات کو دہرا دہرا کراُس نے،  اسے مائل کر ہی لیا کہ وہ ‘مکالے‘ میں اپنے حصے پر اپنا نام لکھنے سے دست بردار ہوگئی ۔ اُس کے لیے یہ ایک بڑی فتح و کامیابی تھی جس پر وہ فخرومسرت کا اظہار چھپا نہیں سکتا تھا ۔

                      اب وہ ایک ‘ عظیم دانشمند  و محقق‘ کا مرتبہ حاصل کر چکا تھا۔ ملک بھر کے اخبارات، ریڈیو و ٹیلی ویژن پر اس کے انٹرویوز، اس کی شہرت اور ‘ دریافت ‘ کو مزید چار چاند لگا رہے تھے ، لیکن اُس نے بھی اس بات کو چھپایا نہیں تھا کہ اس سب کچھ کے حاصل کرنے میں اُس کی بیوی نے بھی اس کی کچھ  مدد کی تھی ۔

                       اب اُسے نا صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی مدعو کیا جانے لگا کہ وہ آئے اور اپنی دریافت و نظریات کے بارے میں لوگوں کو بتلائے ۔ شروع میں تو وہ اس کے لمبےسفر اور کئی کئی دونوں تک گھر سے دور رہنے کو نظر انداز کرتی رہی لیکن اب اُن کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو پھر وہ چاہنے لگی کہ اب اُسے ایسے لمبے سفروں پر نہیں جانا چاہیے، وہ اس بات کو بھی اپنے اوپر چھا جانے سے نہیں روک سکتی تھی کہ وہ اپنی دریافت کے فارمولے کو مزید بہتر بنانے میں لگا رہے اور اسے مزید وسعت دے ۔ ادھر اب اُس نے بھی اپنے انٹرویوز وغیرہ میں اُس کا تذکرہ کرنا چھوڑ دیا ہوا تھا اور پھر اپنے ایک لمبے سفر سے وہ گھر واپس ہی نہیں لوٹا تھا ۔

                      اپنے شدید ترش و تلخ غصے میں اُس نے ‘ اس بڑی دریافت‘ میں اپنے کردار کے حوالے سے ایک اخبار کو ایک انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کردی ۔ اگلے روز اخبار کی سرخی میں بڑے جلی الفاظ میں اُس کے کردار کو  ‘ عظیم قربانی دینے کے مترادف‘ قرار دیتے ہوئے، اس کے عقل و شعور پر اسے داد سے نوازا گیا تھا ، لیکن اس سب کا نتیجہ ایک بڑے سکینڈل کی صورت میں اُٹھ کھڑا ہوا، تاہم کسی بھی سنجیدہ دانشور و محقق نے اسے کسی بھی لحاظ یا پہلو سے اہمیت دیے جانے کے قابل ہی نہ سمجھا کیونکہ اُس نے بذات خود نہ کسی ‘ نظریے کو پیش کیا تھا اور نہ ہی خود کچھ ‘ دریافت ‘ کیا تھا ۔  اُس کا ‘دانشمند، محقق ‘ خاوند اُس کے بارے میں بہت ہی محتاط رہا اور اپنے ‘ نظریے اور دریافت‘ کے سارے عمل کی کامیابی و کامرانی میں اُس کے حصے کا کہیں نا کہیں، کچھ نا کچھ ذکر کرنے لگا، بیشک یہ دبے لفظوں ہی میں ہوتا تھا لیکن اُس کی بیوی نے تو اُس کے لیے بظاہر ایک گڑھا کھود دیا تھا ۔

                      یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد، اب وہ ، اُس کی کامیاب و درخشاں زندگی میں صرف ایک، عام سی عورت بن کر رہ گئی تھی۔ یہی وہ کہانی ہےجو اُس عظیم دانشور و محقق کے بارے میں اب تک بار بار سنائی جاتی ہے ۔

کیا آپ کو اس پر اعتبار ہے ؟

نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔

مُختل ملاقات

November 29th, 2009

یہ بہت ہی اذیت دہ ہے کہ میں ۔۔۔۔۔ یعنی اگر میں اپنے آپ کو تب ملنے کے قابل ہوتا جب اس کی اشد ضرورت تھی ۔۔۔۔۔ ممکن ہے تب میں کوئی خود اعتمادی حاصل کر لیتا ۔ شاید، ایسا ہی ہوتا۔ حیرت و استعجاب تو ہے ہی لیکن یہ ممکن بھی تو تھا ۔ شاید کسی جرم یا تقصیر کے ساتھ ۔ اگرچہ یہ بین واضع نہیں کہ ‘ ہم‘  میں سے کس کی تقصیر یا جرم زیادہ بڑا ہے ۔ کاش میں اپنے آپ کو  اپنی نوجوانی کے روپ میں پہچان سکتا، لیکن کیا میں تب اپنے بڑھاپے کو پہچان سکتا؟ تب تو میرے لیے یہ سوچنا بھی نا ممکن تھا کہ میں کبھی بوڑھا بھی ہو جاؤں گا تب میں بوڑھے لوگوں کو بڑی دوستانہ نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ میں ‘اس ‘ کی طرح تو بمشکل ہی دکھائی دیتا تھا جو یہ دعویٰ  کرتا تھا کہ وہ، ‘ میں ‘  ہوں ، یا ایک نا ایک دن تو ‘میں‘ ، ‘ وہ ‘ ضرور بن جاؤں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ جب میں اپنے آپ کو اپنے آپ میں پہچان جاؤں گا تو ‘ وہ ‘ خوش نہیں ہو گا،  ‘وہ ‘ جو میں نہیں اور، ‘میں‘ جو ‘ وہ‘ نہیں ۔ کبھی خوش نہیں ہونگے ۔آخر ہمارا اپنا اپنا غصہ بھی تو ہے اور یہی غصہ ہی تو ہمیں ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتا، ہم اپنے اپنے غصے کی کیسے خلاف ورزی کر سکتے ہیں ۔ ‘ اس ‘  کی سوچ تو ‘اس‘ کی اپنی ہے،  لیکن خود مجھے‘  اپنے آپ ‘ سے کیا کرنا چاہیے؟

جیسا میں اپنی جوانی میں اپنے پر بھاری زندگی کو بسر کرنے کی جدوجہد کرتا رہا اور بد سے بدترین ہوتی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بر سر پیکار رہا، اگر میں اپنے بڑھاپے میں ایسا کر سکوں تو شاید اب اس کا کوئی ثمر مل جائے، لیکن کیا میں اب جوانی کے اپنے دونوں کو واپس لا سکتا ہوں ؟ کیا میں اب اتنا جوان ہوں کہ وہ تگ و دو کر سکوں جس کا کوئی ثمر ہی نہیں تھا ؟ لیکن ‘وہ‘ کہتا ہے کہ ہاں ابھی بہت مواقعے ہیں ۔ شواہد بھی مجھے یہی بتاتے ہیں لیکن، کیا میں اب بڑھاپے میں ‘اس‘ کی بات مان لوں؟ اور کیا میں اپنے وجود کی حاضر اصلیت کو فوری طور پر ختم کردوں ؟ یہ سب کچھ کرنے کے لیے کیا مجھے ‘ اس ‘ کے مشورے کی ضرورت ہے؟ یہ تو میں خود بھی کرسکتا ہوں لیکن اگر میں یہ کر گزروں تو یہ تو ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ‘ وہ‘ چاہتا ہے، تو پھر میں یہ غلطی کیوں کروں ۔ اپنی مدد آپ کرنا درست سہی لیکن اس پر کسی کی چھاپ تو نہیں ہونی چاہیے نا!، آپ میری بات سمجھ ہی رہے ہونگے ۔

اپنے آپ میں ہر کوئی خود تو ایسا نہیں کہ وہ اپنی جوانی میں دوسرے بوڑھوں کی بات مانے، اور جب کوئی اپنے بڑھاپے میں بھی خود کو جوان ہی سمجھنے  تو پھر یہ ‘ بوڑھی جوانی‘ آپ ہی بتائیے کہ، ‘ جوان بڑھاپے‘  کو کیا بتا سکتی ہے کہ وہ اسے مان لے ۔  کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جوانی میں، اپنے علاوہ دوسرے بوڑھوں کی بات نامے لیتے ہیں کیونکہ وہ خود کو بوڑھا سمجھتے ہی نہیں ۔ حالانکہ بڑھاپے میں دوسرے نوجوانوں کی مدد کرنا، اپنی جوانی کے دونوں میں مدد کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہو تا ہے ۔ اب جب کہ  ‘میں‘  خود بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہوں‘ وہ ‘ مجھ سے ، جوانی میں کیے جانے والے کاموں کا مطالبہ کر رہا ہے، بھلا آپ ہی بتائیے کہ میں ‘ بوڑھاجوان‘ اب ‘اس‘ کی بات کیسے مان لوں ‘ وہ ‘ جو میرا ‘ ھمزاد‘ ہے، بوڑھا کہیں کا!۔

مقدر یا اجل؟

October 8th, 2009

میں  اکثر سوچتا ہوں اور اپنی اس سوچ پر کبھی غمگین تو کبھی خوش بھی ہو جاتا ہوں لیکن،  پھر ان دونوں میں سے جو کوئی  ایک صورت سامنے ہو اسے نظر انداز کردیتا ہوں اور یوں میری سوچ کی چکی پھر سے چلنے لگتی ہے اور اس کے پُڑوں کے بیچ میرا احساس پسنے لگتا ہے۔ پھر میرے پاس نظر انداز کرنے کو کچھ نہیں ہوتا، غم اور خوشی دونوں پہلے ہی مفقود ہو چکے ہوتے ہیں البتہ ایک شے جو ان دونوں کا مجھے احساس دلاتی ہے،  میں اس سے جتنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں وہ میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور جب میں خواب سے جاگتا ہوں تو اسے غائب پاتا ہوں، میں خود سے کیوں پوچھتا رہتا ہوں، میرا مقدر کہاں ہے؟ آپ شاید میری الجھن کا مداوا کر سکیں! ( نصر ملک) ۔

میرا مقدر کہاں ہے؟
کیا یہاں کچھ ہے جو معنی رکھتا ہے؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میرا مدعا کیا ہے ؟
نہیں، دور اندیشی نہیں، یہ میرا مطلب نہیں،
رائے!، نہیں یہ بھی نہیں 
اس کی تو فراوانی ہی فراوانی ہے

نہیں،  معنی، معنی اور معنی

کیا آپ سمجھ رہے ہیں،  میرا مطلب کیا ہے؟

کیا یہاں مجھے اپنے مقدر سے ملنا ہے؟
میں نے اس کے متعلق بہت کچھ سُنا ہے
مقدر! دوسروں کا مقدر
آٹل، ناگزیر، عین فطرتی اور
 بے رحم، سنگدل، بے مہر مقدر
میں اس سے منہ نہیں چھپانا چاہتا
میں اس سے روبرو ملنا چاہتا ہوں
وہ جو مجھ سے منسوب ہے ۔

کیا آپ آگاہ ہیں؟
کہ اس کی بہتات ہے
کافی سے بھی زیادہ
کوئی شے کم نہیں
کسی شے کی کمی ہی نہیں
یہی تو تصور کیا جاتا ہے، لیکن
ہر کوئی اسی کے لیے مر رہا ہے
ہر روز ہزاروں مرتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں ملتا
کیا یہاں ایسی کوئی شے ہے ، جو معنی رکھتی ہے؟
کیا مجھے اپنے مقدر سے یہاں ملنا ہے؟

میں شائد پھر غلط راہ پر چل نکلا ہوں!۔

 

 

 

جذبہ ء ایثار

October 4th, 2009

فی زمانہ ایسا کچھ بھی نہیں کہ کسی دوسرے کے کام آیا جائے، لیکں میں اسے بڑی سنجیدگی سے لیتا ہوں ۔ یہ محض معمولی بات نہیں کہ کوئی اسے سنجیدگی سے نہ لے، کہ کوئی کسی کی مدد کا محتاج ہو اور وہ اسے مذاق میں اڑا دے ۔  ایسا کرتے ہوئے ، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ کوئی اُس ضرورتمند کی توہین نہیں کرتا تو ایسا ضرور ہے کہ اُس کی عزت بھی نہیں کر تا ۔ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے ۔  لہٰذا  مجھے ایسی عزت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ  میں وہ کچھ کر سکتا ہوں جو دوسرے نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُس کے لیے آواز دے سکتے ہیں ۔  میرے پاس نہ اتنے پیسے ہیں جتنے کہ دوسروں کے پاس ہیں ۔ جتنا دوسرے کرتے ہیں، میں اس حد سے زیادہ نہیں کر سکتا ہوں اور نہ ہی مبالغہ آرائی ،  میں تو کسی کو ، اس کے پوچھنے پر اُسے راہ دکھانے کے قابل بھی نہیں ہوں ۔ لہٰذا  اگر کوئی مجھ سے  پیسے مانگے یا نقل مکانی کے دوران سامان منتقل کرنے کے لیے مدد یا پھر کسی رستے کی نشاندھی کرنے کو کہے تو،  مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اُسے ایسا نہ کرنے دوں ۔ کسی کو دوسروں کی مدد کرنے کو کہنا یا کسی کی خود مدد کرنا تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی تہیہ کئے ہوئے ہو کہ اُسے حقداروں کے لیےکچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے ۔ لیکن یہاں بھی ایک خطرہ ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایک کسی دوسرے کے مقابلے میں کسی کی اچھی مدد کر سکتا ہے اور اسے اس کا موقع نہ دیا جائے تو یہ بہت ہی برا ہے ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جو بہت کم مدد کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اور وہ جو زیادہ مدد کرسکنے کے قابل ہیں ، دونوں کو حقداروں کی مدد کرنے کا حق ہونا چاہیے اور کسی ایک کو دوسرے کی حق تلفی کرتے ہوئے، ضرورت مند حقدار کا حق نہیں مارنا چاہیے ۔ لیکن ایک اور بنیادی اصول بھی ہے؛  آپ اپنے جیسے انسانوں کے لیے جو کچھ بھی مدد کر سکتے ہیں، کیجیے ، یہ بہت اعلیٰ  فعل ہے ۔ آپ میری ہی مثال لے لیجیے، ہاں ! میں نے جب سے بر محل مدد کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے کو ترک کر دیا ہے، مجھے کسی سے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔
کیا یہ اچھا نہیں ؟