حفاظتی پیش بندی

حفاظتی پیش بندی 
نصر ملک  ۔  کوپن  ہیگن ۔

 
 ملک بھر میں یہ خبر ایک بم کے دھماکے سے کم نہیں تھی۔  ’’ آخر کیوں ! ‘ ایسا کیوں؟‘‘
 لاری اڈوں سے لے کر کیفے ٹیریوں تک بس ایک ہی سوال تھا جو عوام الناس کے ہونٹوں پر تھا۔
   ’’یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے؟‘‘
 وزیراعظم کی سربراہی میں ‘ عجلت میں بلائے گئے کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس میں تمام وزراء نے متفقہ طور پر ملک بھر میں’’  ہنگامی حالت‘‘  کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا۔ اور یہ سب کچھ ’’حفاظتی پیش بندی‘‘  کے زمرے میں قرار دیا جا رہا تھا۔
 ’’حفاظتی پیش بندی‘‘  کے نفاذ نے ملک بھر کے عوام کو بہت حد تک ایک عجیب سی غیر یقینی میں مبتلا کر دیا تھا۔ کیونکہ پڑوسی دشمن ملک کی سرکار اس حفاظتی پیش بندی کو اپنے لئے ایک کھلی دھمکی سمجھ سکتی تھی اور اس کے جواب میں کچھ بھی کر سکتی تھی۔
  حفاظتی پیش بندی لاگو ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر میں ایک طرح کے خوف کی لہر نے عوام الناس میں ایک ایسی کھلبلی مچا دی کہ وہ کھل کر اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اپنی آنکھوں میں سوال لئے ہر کوئی ایک دوسرے کو یوں دیکھنے لگا تھا گویا حکومتی اقدامات کا ذمہ دار وہی ہو۔
 عوام الناس میںصاحبانِ عقل و شعور بھی اگرچہ اس بات پر متفق تھے کہ اس ’’حفاظتی پیش بندی‘‘  کے نفاذ کے لئے حکومت کے پاس کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا۔ لیکن یہ دانشور طبقہ بھی محض قیاس آرائیوں میں اضافے کا سبب بن رہا تھا اور پھر  ——- ‘ دشمن پڑوسی ملک نے بھی اپنے ہاں اسی طرح کی ’’حفاظتی پیش بندی‘‘ کا اعلان کر دیا جس سے پہلے ملک کے عوام الناس کی بے چینی اور غیر یقینی میں اضطرابیت کا اور اضافہ ہو گیا۔
 دونوں ملکوں کے عوام الناس اپنی اپنی حکومتوں کے ان اقدامات سے نہ صرف ناخوش تھے بلکہ ان اقدامات کو اپنے اپنے ملک میں سیاسی و سماجی غیر یقینی اور اس وجہ سے افراتفری کی صورتِ حال کا جواز بنار ہے تھے۔ دونوں ملکوں کے اِن لوگوں نے اپنے اپنے ملک میں سرکار کی لاگو کردہ ’’حفاطتی پیش بندیوں‘‘ کے خلاف مظاہرے کئے۔ انہوں نے اپنی اپنی حکومت کے ان اقدامات کے خلاف مظاہروں کے دوران جو پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے ان پر ایک ہی طرح کا مطالبہ لکھا تھا۔’’حفاظتی پیش بندی منسوخ کرو!‘
 اپنے اپنے ملک میں یہ لوگ ایک ہی مقصد کے لئے مظااہرے کر رہے تھے۔ ان کے مطالبات یکساں تھے۔ اور اُن کی روزمرہ کی گفتگو کا موضوع بھی ایک ہی تھا۔ ان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے عوام پر الزام لگایا کہ وہ دشمن کے لئے کام کر رہے ہیں۔ چنانچہ دونوں ملکوں کی حکومتی مشینریاں حرکت میں آگئیں اور انہوں نے اپنے اپنے ہاں ایسے احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کو ‘‘حفاظتی پیش
 بندی‘‘ کے قانون کے تحت حراست میں لے لیا۔
 دونوں ملکوں کی حکومتوں کے اپنے اپنے ہاں ان تازہ اقدامات سے ‘ عوام کے طیش و غصے میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ وہ جو بہت زیادہ خفگی اور غصے میں تھے اور پہلے سے حراست میں نہیں لئے گئے تھے انہوں نے پھر مظاہرے کئے اور جلوس نکالے۔ اب کی بار انہوں نے جو پلے کارڈ اور بینرز اُٹھا رکھے تھے اُن پر جلی حروف میں جو
 نعرے لکھے ہوئے تھے وہ آپس میں ملتے تھے——  ’’ہم گرفتار شدہ مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں!‘‘
 دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے ہاں ان نئے مظاہرین کو بھی جیلوں میں بند کر دیا۔ لیکن حکومتوں کے یہ اقدامات عوام کی بے چینی اور سیاسی اضطرابیت میں مزید اضافے کا سبب بن گئے اور اب ہر دو ملک کے لوگوں نے‘سرِ عام نہ صرف اپنی اپنی جگہ پرحکومتی اقدامات کی مذمت کرنا شروع کر دی بلکہ انہوں نے اپنے اپنے ملک میں سرکاری عمارتوں وغیرہ کی دیواروں پر ’’حفاظتی پیش بندی‘‘ کے خلاف اور گرفتار کے گئے لوگوں کی رہائی کے حق میں نعرے لکھنے کی تحریکیں شروع کر دیں ۔
 اب جب دونوں ملکوں کے طول وعرض میں’’حفاظتی پیش بندی‘‘  کے خلاف آوازیں اُٹھنے لگیں تو دونوں ملکوں کے وزیر اعظموں نے اپنی اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے ان اجلاسوں کے بعد‘ دونوں ملکوں کے وزراء اعظم نے اپنے اپنے عوام کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ایک ہی وقت پر خطاب کرتے ہوئے اپنی اپنی تقریر میں واشگاف الفاظ میںاعلان کیا کہ وہ اپنے عوام کی طرف سے مظاہرے کئے جانے کی وجوہات کو خوب سمجھتے ہیں۔ اور انہیں مظاہرین کی نیک نیتی پر قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں‘ لیکن شر اور جنگ کے خطرات حاوی ہوں تو محض مثبت خیالی اِن خطرات پر قابو پانے کے لئے کافی نہیں ہوتی۔
 دونوں ملکوں کے وزراء اعظم نے اپنے اپنے عوام کو اپنی اپنی بھاشا اور زبان میں بتایا کہ وہ ان اقدامات کا احترام کریں جو حکومت نے ان کے اپنے تحفظ و مفادات میں کئے ہیں۔ ان دونوں وزرائے اعظم نے  اپنے اپنے ہاں ’’ حفاظتی پیش بندی‘‘  کے نفاذ میں جو دلیلیں پیش کرکے اپنے اپنے مؤقف کو تقویت دی اُن دلیلوں کا لب لباب یہی تھا۔
 ’’ہم اپنے آپ میں امن جو اور امن گر ہیں‘ ہم جو شانتی و بھائی چارے اور اخوت پر ایمان رکھتے اور اسے دھرم مانتے ہیں۔ ہم دینا کے محض چھوٹے سے حصّے پر حکمرانی کرتے ہیں‘ بد قسمتی سے ہمیں ناگوار حقیقتوں کی طرفداری کرنی ہوگی اوریہ عمل ہم نے خوش قسمتی سے شروع کر دیا ہے‘ کیونکہ اسی میں ہی ہماری بقا اور ہمارے ملک کی سالمیت کی ضمانت ہے  ۔ #  #  #

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.