محبت کا منتظر، خیالی محل ۔ از، نصر ملک ۔

محبت کے متعلق بڑی خوش کن کہانیاں سنائی جاتی ہیں اور بدقسمتی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔ محبت، خوشیوں بھرے طلسماتی قصوں سے بھی بھری ہوتی ہے اور دکھ دہ واقعات سے بھی ۔

محبت ہر شے کو فتح کر لیتی ہے ۔ اور جب انسانوں کو اس کی سخت تلاش ہوتی ہے تو یہ اس لیے نہیں کہ دینا پر کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہوتی ہے، نہیں!، بلکہ اس لیے کہ اس کی ضرورت اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے ۔ محبت کی تنگ دستی، اذیت دہ بھی ہوتی ہے اور اس کی
فراوانی، غیر منصفانہ بھی ہو سکتی ہے ۔ محبت کے دریا کا منبع ایک آنسو ہی تو ہوتا ہے جو تمام قوتوں پر بھاری ہوتا ہے ۔ خوشی کی قوتیں اور دکھ و غمی کی قوتیں ۔
محبت اندھا بھی کردیتی ہے، محبت میں مبتلا، دوسرے انسانوں کو نہیں دیکھ سکتا، اور  اپنے محبوب کےسوا دوسروں سے محبت نہیں کر سکتا ۔ محبت میں جس کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں وہ انسانوں کو دیکھ تو سکتا ہے محبت نہیں کر سکتا ۔
اندھی محبت تو محبت ہوتی ہی نہیں ۔ لیکن محبت کی ابدیت اور اس کا خواب، کون ہے جو نہیں چاہتا یا نہیں دیکھتا ۔ محبت کا تواتر، محبت کے خواب دیکھنے سے آگے تک جا سکتا ہے لیکن محبت کا خواب، محبت کے تواتر سے کہیں زیادہ لاجواب بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی محبت کے آغاز کا سرچشمہ بھی ۔ محبت کی ابدیت اور محبت کا خواب، ان دونوں میں سے کسی ایک کو پانے کے لیے، کسی دوسرے کا چاہنا اور اس سے محبت کرنا ضروری ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ پہلے خود اپنے آپ سے محبت کرننی پڑتی ہے ۔ محبت ہمیشہ دو کے درمیان شروع ہوتی ہے ۔ دو اجنبیوں کے درمیان ۔ دو خوابی اجنبیوں کے درمیان ۔ ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کے خواب نہیں دیکھ سکتا ۔ نہ خوشیوں بھرے خواب اور نہ ہی دکھ بھرے خواب ۔ ان کے اپنے اپنے خواب ہوتے ہیں۔ ایک کے اگر خوشیوں بھرے ہوسکتے ہیں تو دوسرے کےخواب دکھ دہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ نہ کوئی کسی کے دکھ لے کر اسے اپنے سکھ دے سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو اپنے سکھ دے کر اس کے دکھ خود لے سکتا ہے لیکن محبت میں تو دکھ سکھ سب سانجھے ہوتے ہیں، لیکن محبت ہوتو، آخر یہی محبت ہی تو سکھ دکھ دیتی ہے اور یہی تو ہوتی ہے جو دکھوں کا مداوا کرتی اور سکھ سمیٹی ہے ۔

روح کے اندر ، محبت کا ایک خوابی محل ہے،
جو ابھی خالی ہے اور، جس میں خواہشیں بھری جانی ہیں،
کرنے کا کام جو ابھی کیا ہی نہیں،
محبت!، محبت!!، محبت!!!،
احساسات جو ابھی ظہور ہی نہیں ہوئے،
محسوسات جن کا کہیں نام و نشان ہی نہیں،
آنسو جو ابھی بہے ہی نہیں،
محبت جو ابھی ہوئی ہی نہیں
ملاطفت و ناز برداری جو میسر ہی نہیں،
روح کے اندر ، محبت کا خوابی محل، کیسے بھرے،
جب سبھی دروازے بند ہوں، کوئی باہر دستک دینے والا
اور اندر سےدر کھولنےوالا ہی نہ ہو تو،
محبت کی طلسماتی کہانیاں، محبت کے متعلق نہیں ہو سکتیں،
التبہ وہ فتح پانے اور مفتوح کر لینے کے متعلق ضرور ہوتی ہیں،
فاتح اور مفتوح!، کی کہانیاں،
وہاں پر ختم ہوتی ہیں جہاں سے اصل محبت شروع ہوتی ہے ۔
ناکام محبت کے گیتوں کی سریں تو شاید، مجھے بھی اور تمھیں بھی یاد ہوں، لیکن
وہ روح کے اندر، محبت کے خوابی محل کا خالی پن
کیسے بھرا جائے
مجھے دیکھو، محبت کا طلبگار
تمھیں مجھ سے محبت کرنی ہے
مجھے دیکھنے لیے تمھیں مجھ سے محبت نہیں کرنی
ہاں محبت جو تمھیں دکھا سکے کہ، محبت دکھائی نہیں جا سکتی
دیکھو نا میں تمہی سےتو محبت کرتا ہوں
دیکھو میری محبت!۔ 

                                  نصر ملک ۔  کوپن ہیگن ۔

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.