جذبہ ء ایثار

فی زمانہ ایسا کچھ بھی نہیں کہ کسی دوسرے کے کام آیا جائے، لیکں میں اسے بڑی سنجیدگی سے لیتا ہوں ۔ یہ محض معمولی بات نہیں کہ کوئی اسے سنجیدگی سے نہ لے، کہ کوئی کسی کی مدد کا محتاج ہو اور وہ اسے مذاق میں اڑا دے ۔  ایسا کرتے ہوئے ، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ کوئی اُس ضرورتمند کی توہین نہیں کرتا تو ایسا ضرور ہے کہ اُس کی عزت بھی نہیں کر تا ۔ حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے ۔  لہٰذا  مجھے ایسی عزت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ  میں وہ کچھ کر سکتا ہوں جو دوسرے نہیں کر سکتے اور نہ ہی اُس کے لیے آواز دے سکتے ہیں ۔  میرے پاس نہ اتنے پیسے ہیں جتنے کہ دوسروں کے پاس ہیں ۔ جتنا دوسرے کرتے ہیں، میں اس حد سے زیادہ نہیں کر سکتا ہوں اور نہ ہی مبالغہ آرائی ،  میں تو کسی کو ، اس کے پوچھنے پر اُسے راہ دکھانے کے قابل بھی نہیں ہوں ۔ لہٰذا  اگر کوئی مجھ سے  پیسے مانگے یا نقل مکانی کے دوران سامان منتقل کرنے کے لیے مدد یا پھر کسی رستے کی نشاندھی کرنے کو کہے تو،  مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اُسے ایسا نہ کرنے دوں ۔ کسی کو دوسروں کی مدد کرنے کو کہنا یا کسی کی خود مدد کرنا تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی تہیہ کئے ہوئے ہو کہ اُسے حقداروں کے لیےکچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے ۔ لیکن یہاں بھی ایک خطرہ ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایک کسی دوسرے کے مقابلے میں کسی کی اچھی مدد کر سکتا ہے اور اسے اس کا موقع نہ دیا جائے تو یہ بہت ہی برا ہے ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جو بہت کم مدد کرنے کی ہمت رکھتے ہیں اور وہ جو زیادہ مدد کرسکنے کے قابل ہیں ، دونوں کو حقداروں کی مدد کرنے کا حق ہونا چاہیے اور کسی ایک کو دوسرے کی حق تلفی کرتے ہوئے، ضرورت مند حقدار کا حق نہیں مارنا چاہیے ۔ لیکن ایک اور بنیادی اصول بھی ہے؛  آپ اپنے جیسے انسانوں کے لیے جو کچھ بھی مدد کر سکتے ہیں، کیجیے ، یہ بہت اعلیٰ  فعل ہے ۔ آپ میری ہی مثال لے لیجیے، ہاں ! میں نے جب سے بر محل مدد کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے کو ترک کر دیا ہے، مجھے کسی سے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔
کیا یہ اچھا نہیں ؟

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.