الفاظ اور زوال

 سزا بڑی واضح ہے ،  حقیقت کے بارے میں کوئی بھی دانستہ اقدام،  بہت ہی مشکل، بلکہ شائد ایک وقت پر ناممکن بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ’’ لفظ‘‘ کو پہلے،اس کے لیے اپنے آپ سے کھیلنا اور پھر اپنی غلطی فراموش کر دینے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔
 کوئی ایک اختلاف،  تمام فسادات کی جڑ ہے ۔  مذہبی پنڈتوں،  ملاؤں،  راہبوں اور  دیگر دینی مبلغوں کے نزدیک،  ’’ الفاظ ‘ ‘  ،تضادات کے لیے حالات پیدا کرتے ہیں اور یوں انسانی انحطاط کا باعث بنتے ہیں ، نفسیاتی ماہرین انہیں صدمہ کا سُومہ سمجھتے ہیں، اور فلسفیوں کے نزدیک یہ غیر منطقی اور لغو ہے البتہ ، یہ تجربہ، کسی کے لیے ، خود اپنے آپ سے درگزرنہ کرنے کا سامنا کرنے کی وجہ بھی ہو سکتا ہے ۔ 
 بعض یہ بھی سوچ رکھتے ہیں کہ اختلاف،  نہ صرف جدید فنون بلکہ کسی بھی تخلیق کی تحریک کے لیے ایک مؤثر، عنصرہے ۔  اختلاف کہاںتک الفاظ کی پیداوار ہے یا یہ دونوں حقیقتاًآپس میں کتنے متوازی ہیں،  اس بارے میںکچھ صاف واضح بھی نہیں ۔  ان دونوں کے درمیان، تعلق،  ضروری نہیں کہ  ’’ مسئلہ ‘‘  ہی ہو ۔ اور یہ بھی بہت مبہم ہے کہ صدمہ پہنچنے اور انسان کے زوال تک کے عین بیچ کی صورت حال کے دوارن ، الفاظ اس کا مداوا نہیں کر سکتے ۔ 
 الفاظ کی نشست و برخاست، کسی تحریر میں ان کے لغوی معنی بھی بدل سکتی ہے اور ان کے نئے معنی و مطالب بھی سامنے لا سکتی ہے ۔ الفاظ کا پیچ در پیچ ایک دوسرے کے ساتھ، مفہوم و مطلب کے لیے نتھی ہونا، ان کے، مفہوم کو غیر واضح بھی بنا سکتاہے اور، یوںسوچ و سمجھ کی ایک نئی مشکل بھی جنم لے سکتی ہے ۔ جسے ایک نئی ’’ فکر ‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ۔
   حقیقت کے اصل تجربے کی بدیہی شرط، زوال ہے ۔  زوال ہی دراصل سچائی و حقیقت ہے ۔ ابد و خلود سے الفاظ کی جانب انحطاط ہی وہ فیصلہ کن اور قطعی اقدام ہے جو  ’’ انسانی تاریخ ‘‘  کی روح ہے  ۔
 آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
 نصر ملک  ۔  کوپن ہیگن ۔
 www.urduhamasr.dk

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.