جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں

جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں

از: نصر ملک  ۔ کوپن ہیگن ۔

ایک آدمی نے کسی نا کسی طرح جب اپنی ایجاد کا ‘مارک‘ رجسٹر کرا لیا تو اسے اُس نے اپنی پہلی کامیابی قرار دیتے ہوئے ایک بڑا مرحلہ طے ہو جانے سے تعبیر کیا۔ یہ واقعی میں اس کے لیے بہت بڑی بات تھی ۔ آخر اب اس نے ایک نئی انوکھی شے بنائی تھی لیکن وہ تو کسی بھی مقصد کے لیے کہیں بھی استعمال نہیں کی جا سکتی تھی ۔ روزمرہ کا استعمال تو بہت دور کی بات تھی، اسے تو کسی مقصد کے لیے بھی بروئے کار نہیں لایا جا سکتا تھا ۔ اس شےکو کاروباری بنیادوں پر تیار کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی ، یہ بہت ہی مہنگا تھا ۔ اس نے اپنی اس ایجاد کو ایک کارخانے کے مالک کو دکھایا اور اسے کاروباری لحاظ سے تیار کرنے اور بازار میں لے جانے کے لیے مشورہ دیا۔

‘‘ نہیں!، بالکل نہیں!!، یہ تو کسی بھی کام نہیں آ سکتی‘‘۔ کارخانے کے مالک نے اُس کی ایجاد کردہ شے کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

‘‘یہ میری ایجاد ہے، اور اب جب دوسری اشیاء کسی نہ کسی مقصد کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں تو یہ کیوں نہیں ہو سکتی، اسے سجاوٹ کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔  موجد بولا ۔

‘‘ ہاں ہاں! یہی تو مسئلہ ہے کہ اسے اس مقصد کے لیے تو کیا کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔‘‘ اب کارخانہ دار کچھ غصے میں تھا ۔

‘‘یہ ایک بالکل نیا خیال، نئی ایجاد، نئی شے ہے۔‘‘  موجد بولا ۔ ‘‘ لوگوں کو ایسی ہی شے کے استعمال کی ضرورت ہے جو وہ کہیں استعمال نہیں کر سکتے ، لیکن بس وہ کچھ ہو سہی ‘‘۔ 

‘‘ اس کے لیے ‘‘آرٹ‘‘ جو ہے ‘‘ ۔ کارخانہ دار بولا ۔

‘‘ آرٹ، ہاہاہا، آرٹ کا تو کوئی سماجی کردارہی نہیں‘‘۔  موجد بولا ۔ ‘‘ وہ تو ایک معمولی سی سستی سی کوئی بھی شے ہو سکتی ہے لیکن وہ لوگوں کی ظاہریت تو اجاگر نہیں کر سکتا، خیالی طور پر تو پوری دنیا کو ایک ‘‘آرٹ کے نمونے ‘‘ کے طور پر بنایا جا سکتا ہے لیکن ایسا نمونہ تو پھر سبھی کے لیے مشترکہ ہونا چاہیے، اور پھر ہر کوئی  اس میں سے کچھ نہ کچھ اپنے لیے لینا چاہیےگا۔‘‘ موجد نے اپنی بات جاری رکھی۔ ‘‘معماروں نے میرے خیالات و تصورات چرا کر، مہنگا ترین عالیشان مکان بنایا ، جس میں کوئی رہ نہیں سکتا، کیونکہ وہ بہت ہی مہنگا ہے۔ لیکن انھوں نے لوگوں کو ایسا کرنے سے منع تو نہیں کیا۔ میری ایجاد کسی کام نہیں آ سکتی، تم کہتے ہو، یہ کوئی ایسی ایجاد نہیں کہ ہر کسی کو اس کی ضرورت ہو اور کوئی اس کی تعریف کرے ۔ لیکن اس طرح کی چیزوں سے پیداوار تو بڑھائی جا سکتی ہےنا!‘‘ ۔

‘‘ لیکن انہیں کوئی خریدے گا ہی نہیں‘‘۔ کارخانہ دار نے کہا ۔

‘‘ ہر کوئی خریدے گا۔‘‘ موجد بولا ۔ ‘‘ ان کے پاس وہ سبھی کچھ تو ہے جس کی انھیں ضرورت ہے اور اب  ان کے پاس ایک دوسرے کو کچھ دینے کے لیے کوئی نئی شے تو ہے نہیں‘‘۔

‘‘ لیکن جنہیں کوئی استعمال ہی نہیں کر سکتا، ان چیزوں کی پیداوار بھی شروع نہیں کی جا سکتی۔‘‘۔  کارخانہ دار بولا ۔ ‘‘ اس کے لیے  کام کرنے کی مکمل سماجی آزادی ہونی چاہیے‘‘۔

‘‘ ہاں، بالکل!، اگرمکمل سماجی آزادی ہو تو پھر ناقابل استعمال اشیا کی بہت زیادہ ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘ موجد بولا۔ اور اپنی ایجاد کے ساتھ، کارخانہ دار کو برا بھلا کہتا وہاں سے چلا گیا ۔ اب وہ ایک کارخانہ دار سے دوسرے اور پھر وہاں سے تیسرے کارخانہ دار کے ہاں اور پھر اسی طرح ہر ایک کارخانہ دار کے پاس پہنچا لیکن کسی نے اس کی ایجاد کردہ شے کو کاروباری بنیادوں پر بنانے کے لیے آمادگی ظاہر نہ کی ہاں  ایک آخری کارخانہ دار جو بچ گیا تھا اُس نے  اپنی دلچسپی کا اظہار کیا، اس کے لیے کام کی سماجی آزادی ایک مسئلہ تھی۔ جس کا وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا تھا، وہ کارکن جنہیں وہ کام پر لگاتا تھا، وہ دن میں بس دو تیں گھنٹے ہی کام کرتے تھے اور اس طرح اسے پوری نہیں پڑتی تھی کہ وہ باقی دن یوں ہی گزار دیں ۔

‘‘ہم شروع کرتے ہیں‘‘۔  اس نے گرمجوشی سےموجد کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ۔

 نئی شے تیار ہو کر جب مارکیٹ میں آئی تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سبھی اسے خریدنے لگے جو اسے کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ اب دوسرے کارخانہ داروں کے بھی کان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بھی ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسی چیزوں کی تیاری شروع کردی جو کسی بھی طرح سے استعمال نہیں کی جا سکتی تھیں۔ ان کی یہ آپسی مقابلہ بازی بڑھتی گئی ۔ مارکیٹوں میں ایسی اشیاء کی بہتات دکھائی دینے لگی جو استعمال نہیں ہو سکتی تھیں ۔ ایجادات پر ایجادات، نت نئی اشیاء ، مارکیٹیں بھرتی جا رہی تھیں ۔ کام کی سماجی آزادی میں تخفیف ہو گئی تھی،  سال کی چھٹیوں کے دن کم کر دیئے گئے اور کرسمس کے مہینے میں دن رات کام کے شفٹیں متعارف کرادی گئی تھیں ۔  اور دولت کی ریل پیل ہو نے لگی ۔

موجد کی ایجاد کا ایک سال پورا ہو جانے پر، اسے انٹرویو کیا گیا ۔
‘‘تمھاری ایجاد نے تو کاروبار کی راہیں کھول دیں، یہ تو ایک کھلا ٹینڈر ثابت ہوئی ہے‘‘، انٹرویو کرنے والے صحافی نے کہا ۔ ‘‘ تم نے  پہلی بار ایک بالکل نئی ناقابل استعمال شے متعارف کرائی‘‘۔

‘‘نہیں، نہیں!، اس میں کچھ بھی تو نیا نہیں تھا‘‘۔ موجد بولا ۔ ‘‘ میں نے تو صرف وہی استعمال کیا جو دوسرے بنا چکے تھے‘‘۔

‘‘ لیکن تم نے تو دنیا کو ایک بالکل ہی الگ رنگ دے دیا ہے، دنیا پہلے تو اپنے ہی رنگ میں تھی یکسر بے رنگ، بالکل یوں جیسے کوئی قدیم  پینٹنگ دیکھ رہا ہوتا ہے ، اور اب دنیا، کم از کم ہماری دنیا، غیر استعمال شدہ اشیاء سے بھری ہوئی ہے ۔‘‘ انڑویو کرنے والا، موجد کے چہرے پر نطریں جمائے ہوئے تھا ۔

‘‘ نہیں ایسا تو ہمیشہ ہی تھا۔‘‘ موجد نے بڑی انکساری و عاجزی سے جواب دیا ۔ ‘‘ میں نے تو سوچا تھا کی لوگ آنکھیں کھولیں گے اور دیکھیں گے کہ کوئی ایک شے کہاں تک اور کیسے ناقابل استعمال ہو سکتی ہے ۔‘‘

‘‘اور انھوں نے یہ دیکھا بھی‘‘۔ انٹڑویو کرنے والا بولا ۔ ‘‘ ان کا مطلب، دنیا کو رکے رہنے اور غیر متحرک ہونے سے روکنا تھا، جب کہ ہر ایک کو اس تحریک کی ضرورت تھی کہ متحرک ہوا جائے، وہ یقینی طور پر اب برآمدات بڑھائیں گے اور یوں ملک میں ہر کسی کے پاس کام کاج بھی ہو گا اور افرادی قوت کا ضیاع بھی نہیں ہو گا، کیا یہی نہیں تھا جو تم چاہتے تھے؟ ‘‘

‘‘ میرا یقین ہے ۔‘‘  موجد نے اپنی ٹائی کی گرہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ‘‘ میں ایسا تو نہیں کہہ سکتا، میرا تو اعتقاد ہے کہ انسان بس وہی کرسکتا ہے جس کی ضرورت ہو ۔

 
¤¤¤

Leave a Reply

You must be logged in to post a comment.